ہندوستانی وزیراعظم مودی کا دورہ اسرائیل اور اسلام کے خلاف سازشیں
تحریر: صابر کربلائی
مہاتما گاندھی نے کہا تھا کہ فلسطین کا تعلق عربوں سے ہے اور فلسطین عربوں کا ہے، جس طرح انگلستان انگریزوں کا وطن ہے، یہ بات بالکل غلط ہے کہ باہر سے صیہونیوں کو لا کر فلسطین میں بسایا جائے اور ان کو فلسطین کے مقامی عربوں پر مسلط کر دیا جائے۔ لیکن دوسری طرف گاندھی کے اپنے ہی آزاد کئے گئے ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نے گاندھی کے نظریات و افکار اپنے پیروں تلے روندھ ڈالے ہیں اور اسرائیل کے جنگی جرائم کی حمایت کرنے تین روزہ دورہ پر اسرائیل جا پہنچے ہیں۔ 4 جولائی 2017ء کو ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کا تین روزہ دورۂ اسرائیل دراصل خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال میں بہت اہمیت کا حامل بن چکا ہے، کیونکہ اگر بغور حالات و واقعات کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ خطے کے خلاف اسرائیل کی جاری سازشوں کو مسلسل ناکامی کا سامنا رہا ہے اور یہ ناکامی اسرائیل کو 2000ء سے لبنان سے پسپائی کے بعد مسلسل لبنان اور غزہ و فلسطین میں جنگیں مسلط کرنے اور ان میں شکست خوردہ ہونے کے بعد حتٰی داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے قیام اور ان کی شکست اور ناکامی کے بعد بہت سی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، جیسا کہ امریکی صدر کی سربراہی میں ریاض میں مسلمان ممالک کو جمع کرنا اور پھر فلسطینیوں کی تحریک آزادی کو نہ صرف امریکہ نے بلکہ ہمارے اپنے ہی برادر اسلامی ملک سعودی عرب کے بادشاہ نے بھی دہشت گرد قرار دیا اور اس کے بعد جو سلسلہ چل نکلا ہے کہ قطر کے خلاف بھی سعودی قیادت میں محاذ بنایا جا رہا ہے اور اسی طرح اب لگتا ہے کہ مراکش کا نمبر بھی آنے والا ہے، کیونکہ اس نے بھی قطر کے معاملے میں عرب ممالک کے کردار پر تنقید کی ہے۔ بہرحال یہ وہ حالات اور واقعات ہیں، جو خود ایک مفصل بحث کے متقاضی ہیں۔
آیئے اب ذرا بات کرتے ہیں ہندوستان کے وزیراعظم مودی کی اسرائیل یاترا کے بارے میں۔ مودی کی اسرائیل یاترا دراصل چھ ماہ قبل یا شاید اس سے بھی پہلے طے پا چکی تھی اور شاید اسرائیل مودی کے اس دورہ کو اپنے حق میں اور خطے میں موجود ریاستوں کو پیغام دینا چاہتا تھا، یعنی گذشتہ چھ ماہ کے حالات کا مشاہدہ کیا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے کہ شام کے وہ تمام علاقے کہ جو اسرائیلی حمایت یافتہ دہشت گرد گروہ داعش کے چنگل میں تھے، شامی افواج کی کاروائیوں کے نتیجہ میں آزاد ہوئے ہیں اور شام کے تمام علاقوں سے ان دہشت گرد گروہوں کا قلع قمع کر دیا گیا ہے، دوسری طرف عراق کی صورتحال بھی ایسی ہی ہے کہ جہاں عوامی رضا کار فورس اور عراقی افواج نے عراق کے متعدد علاقوں کو داعش سے آزاد کروا لیا ہے، اسی اثناء میں ہم نے دیکھا ہے کہ ریاض کی سرزمین پر دنیا کے سب سے بڑے شیطان کی آمد اور مسلم دنیا کے حکمرانوں کی سربراہی کرنا اور پھر انہوں نے فلسطین اور فلسطین کی مزاحمتی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دیا، جبکہ انہی گذشتہ چند ماہ میں فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور بیت المقدس کے مفتی اعظم محمد حسین سمیت مسجد اقصٰی کے خطیب عکرمہ صابری بھی پاکستان کے مسلسل دورہ جات کرچکے ہیں، اور اسی طرح انہی ایام میں اقوام متحدہ میں موجود پاکستان کی مندوب ملیحہ لودھی بھی اسرائیل کی حمایت میں ملا جلا متنازعہ بیان دے چکی ہیں، جس پر ملک بھر میں انہیں شدید تنقید اور ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔ اسی دوران فلسطین کاز کے لئے سرگرم عمل ویب سائٹس اور سوشل میڈیا کے صفحات پر ایک ایسا مقالہ بھی شایع ہوا ہے کہ جس میں پاکستان کے گذشتہ کئی سالہ اسرائیل کے ساتھ خفیہ سفارت کاری کے اقدامات کو فاش کیا گیا ہے اور یہ بیان کیا گیا تھا کہ کس طرح اسرائیل پاکستان کے قریب آنا چاہتا ہے اور پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات بناکر ایک طرف اپنی جعلی ریاست اسرائیل کو قبول کروانا چاہتا ہے تو دوسری جانب فلسطین کاز کی جاری جدوجہد کو بھی ختم کرکے فلسطینیوں کو زک پہنچانا چاہتا ہے۔
ان تمام حالات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ کہنا کسی صورت بے جا نہ ہوگا کہ دنیا بھر میں امریکی سرپرستی میں جاری تمام وہ سازشیں کہ جن کا مقصد اسلام کو بدنام کرنا اور فلسطین سمیت کشمیر اور دیگر مقامات پر جاری حقوق کی جدوجہد اور آزادی کی تحریکوں کو دہشت گرد قرار دینا، اس کام کے لئے امریکہ اور اس کے حواری مسلسل سرگرم عمل ہیں۔ یہ بات بھی یاد رہنی چاہئیے کہ انہی گذشتہ چند ماہ میں ہی مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور وہاں پر ان کو سعودی حکمرانوں نے نہ صرف سونے اور ہیرے جواہرات کے قیمتی تحفوں سے نوازا بلکہ غیر معمولی پروٹوکول بھی دیا، جس طرح ان عرب حکمرانوں نے امریکی صدر کی سربراہی میں ریاض کانفرنس میں فلسطین کی آزادی کی تحریک حماس کو دہشت گرد قرار دیا ہے، اسی طرح اس بات میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ یہ عرب حکمران ہندوستان کو یقین دہانی کروا چکے ہیں کہ وہ مسئلہ کشمیر پر بھارت کا ساتھ دیں گے، جیسا کہ مودی کے حالیہ دورۂ اسرائیل میں بھی اسرائیلی حکمرانوں نے واضح طور پر ان بیانات کی تکرار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل پاکستان کے خلاف ہندوستان کی ہر ممکنہ مدد کرے گا، یعنی مسئلہ کشمیر پر بھی اسرائیل ہندوستان کا ساتھ دے گا، یعنی ایک طرف مودی نے سعودی عرب کا دورہ کیا تو وہاں بھی اسی طرح کا ملا جلا رحجان پایا گیا، جبکہ اب اسرائیل کے دورہ پر بھی پاکستان کے خلاف ہی باتیں سامنے آ رہی ہیں، جس کا واضح ترین مقصد یہی سمجھ آتا ہے کہ پاکستان کے دشمن اسرائیل اور ہندوستان کا فطری اتحاد قائم ہے، لہذٰا اب پاکستان کو بھی چاہئیے کہ وہ اسرائیل مخالف فطری اتحاد تشکیل دینے میں دیر نہ کرے، تاکہ خطے میں صیہونی عزائم کا راستہ روکنے میں مدد حاصل ہو۔
ایک اور اہم نکتہ جو مودی کے دورہ اسرائیل کے بارے میں سمجھ آتا ہے، وہ یہ ہے کہ جیسا کہ مندرجہ بالاسطور میں بیان ہوا ہے کہ یہ دورہ کئی ماہ قبل طے پایا تھا اور اس کے دوران پاکستان میں فلسطینی رہنماؤں کی آمد اور اس کے ساتھ ساتھ مختلف تبدیلیاں رونما ہونا، ان سب کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ مسئلہ فلسطین مسلم ممالک کی اولین ترجیحات میں سے نکل جائے، جو کہ انہوں نے ریاض کانفرنس میں امریکی صدر کی سربراہی میں برملا اعلان کیا، اب اسرائیل اور ہندوستان کے اس طرح کے تعلقات اور پاکستان کے خلاف آنے والے بیانات واضح اشارہ دے رہے ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل پاکستان پر دباؤ بنا کر پاکستان کی ترقی کے راستوں کو روکنا چاہتے ہیں اور پاکستان کو مجبور کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کر لے یا مستقبل میں کبھی دو ریاستی حل کی بات ہو تو پاکستان کسی بھی طور پر اسرائیل کی مخالفت نہ کرے۔ بہرحال یہ وہ بات ہے کہ جو یقیناً غیر فطری اور قیام پاکستان اور بانیان پاکستان کے نظریات و افکار سے غداری کے مترادف بھی ہے اور پاکستان کی نظریاتی اساس کی مخالف بھی، تاہم پاکستان کے عوام ہمیشہ فلسطینیوں کے ساتھ رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ پاکستان نے آج تک اسرائیل کی جعلی ریاست کو تسلیم نہیں کیا اور اس لئے پاکستان کو اسرائیلی سازشوں کا سامنا بھی ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مودی کی اسرائیل آمد پر فلسطین میں مظاہرے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر قاتل اتحاد کے عنوان سے کیمپین بھی دیکھنے میں آئی ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ فلسطینی عوام مودی اور نیتن یاہو کو مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کے قتل عام کا ذمہ دار سمجھتے ہیں جو کہ حقیقت بھی ہے۔
ماضی میں بہت سی حکومتوں اور ان کے آلہ کاروں نے کوشش کی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ خفیہ روابط قائم کئے جائیں، لیکن ہمیشہ ناکام رہے ہیں، بہرحال اب سوچنا یہ ہے کہ ایک طرف ہندوستانی وزیراعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور اب اس کے بعد اسرائیل کا، دوسری طرف امریکہ ریاض میں تمام مسلمان ممالک کو کہہ چکا ہے کہ وہ فلسطین کاز کی حمایت سے دستبردار ہو جائیں، جس پر تقریباً تمام عرب ممالک تو تسلیم خم ہوچکے ہیں، اب دیکھنا یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر یہ عرب دنیا پاکستان کا ساتھ دیتی ہے یا ہمیشہ کی طرح پاکستان کی پیٹھ میں خنجر ہی گھونپا جائے گا، کیونکہ عرب حکمران جب فلسطین کا امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ سودا کر سکتے ہیں تو کیا ان سے امید کی جا سکتی ہے کہ وہ کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کا ساتھ دیں گے۔؟ بہرحال پاکستان کی خارجہ پالیسی کے ہنر مندوں کو بھی چاہئیے کہ وہ اسرائیل اور ہندوستان کے اس پاکستان مخالف گٹھ جوڑ اور ان کی پاکستان مخالف ناپاک سازشوں کا منہ توڑ جواب دیں، تاکہ کسی کی مجال نہ ہو کہ وہ پاک سرزمین کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات بھی کرسکے۔