بچّوں تک سے انتقام لیتی حکومتِ اسرائيل
انتخاب و تلخیص: م۔ ہاشم
مسجد اقصیٰ پر اسرائيلی جارحیت ابھی چند ہفتوں قبل تک عالمی اخبارات کی سرخیوں میں تھی اور گزشتہ ہفتے اسی جارحیت کا نیا تماشا اُس وقت دیکھنے کو ملا جب مغربی کنارہ میں اسرائيلی حکام نے تین اسکولی عمارتوں کو تباہ کردیا۔ صرف دو ہفتوں میں تین اسکول۔
انسانی فطرت ہے کہ بچّے ہر کسی کو عزیز ہوتے ہیں۔ کسی بھی قوم، مذہب اور علاقے کے ہوں، بچّوں کو دیکھ کر ایک خوشگوار احساس ابھرتا ہے لیکن اسرائيلی حکام شاید اُس دِل سے عاری ہیں جس میں بچّوں کی محبت کروٹیں لیتی ہے۔ نفرت اور کدورت کوٹ کوٹ کر بھری ہو تو محبت کے لئے جگہ بنے بھی تو کیسے؟
اسرائيلی حکام نے فلسطینیوں کی زمینات پر تو قبضہ کیا ہی، اب انہیں بچی کھچی زمینوں سے بھی بے دخل کردینا چاہتے ہیں۔ اس شیطانی کھیل میں انہیں ہنستے کھیلتے، اسکول جاتے اور پڑھتے لکھتے بچے بھی دشمن بلکہ دہشت گرد نظر آتے ہیں اس لئے وہ ان کے اسکول بھی اجاڑ دینے کے درپے ہیں۔ خبروں کے مطابق مغربی کنارہ کے 55 اسکولوں کو انہدام کا نوٹس دیا گیا ہے۔ گزشتہ سال یہاں کے 256 تعلیمی مراکز یا تو منہدم یا سیل کردیئے گئے جس سے 29 ہزار طلبہ متاثر ہوئے۔
اس پورے کھیل کے پیچھے ایک اور سازش ہے۔ 2011ع سے حکومت اسرائيل ان اسکولوں کو اجازت نامہ اور سرمایہ نہیں دینا چاہتی جو اس کا مرتب کردہ نصاب پڑھانے پر آمادہ نہ ہوں۔ یہ وہ نصاب ہے جس میں فلسطینی شناخت، تہذیب و ثقافت، یہودیوں کی آبادکاری کا حقیقی پس منظر اور تاريخ فلسطین کی مختلف جہتوں پر مبنی اسباق شامل نہیں رکھے گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ فلسطینی تعلیمی ادارے ایسا نصاب نہیں پڑھانا چاہیں گے لیکن جب وہ ایسا کرتے ہیں تو حکومت کے ” آرڈر کی خلاف ورزی“ ہوتی ہے لہٰذا انہیں متنبہ کیا جاتا ہے کہ فنڈ روک دیا جائے گا یا پرمٹ ہی نہیں دیا جائے گا۔
اور پھر ان پر بلڈوزر چلا دیا جاتا ہے۔
(بشکریہ روزنامہ ”انقلاب“، بمبئي۔)