قربانی ، سنت ابراہیمی کی عظیم یادگار
ترتیب و تلخیص: حسین اختر رضوی
امیرالمومنین حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ قربانی میں کتنے فوائد ہیں تو وہ قرض لے کر قربانی کرتے کیونکہ قربانی کا جو پہلا قطرہ زمین پر گرتا ہے اس پہلے قطرہ کی وجہ سے انسان کو بخش دیا جاتا ہے۔
تمام امتوں کے لئے قربانی کو جائز کرنے کا ہدف یہ تھا کہ وہ صرف خدا ئے وحدہ لاشریک کے سامنے سرتسلیم خم کریں اور جو کچھ وہ حکم دے اسی پر عمل کریں دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قربانی کے قانون کو وضع کرنے کی ایک وجہ عبودیت، ایمان اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کو آزمانا ہے. مناسک حج کے بہت سے اعمال ہیں جن میں سے ایک قربانی ہے ، جیسا کہ قربانی کے نام سے واضح ہے کہ قربانی، خداوندعالم سے نزدیکی اور تقرب حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے ۔
عربی زبان میں قربانی کو ”اضحیہ“ کہتے ہیں لہذا دسویں ذی الحجہ کوجس دن کی قربانی کی جاتی ہے ، اس کو عیدالاضحی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، فقہی اصطلاح میں قربانی اس جانور کو کہتے ہیں جس کو بقرعید کے روز ذبح یا نحر کرتے ہیں۔ قرآنی استعمال میں جب قربانی کی بات آتی ہے تواس کے معنی بہت زیادہ وسیع ہوتے ہیں اور اس سے مراد ہر وہ جانور ہے جو واجب یا مستحب ہونے کی صورت میں ہر زمانہ میں ذبح کیا جاتا ہے ،اسی طرح حج کے زمانے ، منی اور دوسرے ایام میں رضائے الہی اور خدا سے تقرب حاصل کرنے کے لئے جوجانور ذبح کیا جاتا ہے وہ سب اس تعریف میں شامل ہیں ۔
حضرت آدم علیہ السلما کے بیٹوں کے قربانی کا واقعہ پوری تاریخ بشریت میں پہلا واقعہ ہے، اگر چہ قربانی کرنا حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں سے شروع ہوئی لیکن ان پر ختم نہیں ہوئی ، کیونکہ قرآن کریم کے بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام امتوں میں قربانی کرنے کو شریعت کے قوانین اور اعمال میں شمار کیا جاتا تھا اور وہ اس کو انجام دیتے تھے۔ قرآن کریم نے سورہ حج کی چونتیسویں آیت میں فرماتا ہے ” اور ہم نے ہر قوم کے لئے قربانی کا طریقہ مقرر کردیا ہے تاکہ جن جانوروں کا رزق ہم نے عطا کیا ہے ان پر نام خدا کا ذکر کریں اور تمہارا خدا صرف خدائے واحد ہے تم اسی کے اطاعت گزار بنو اور ہمارے گڑگڑانے والے بندوں کو بشارت دے دو ، پھر سورہ حج ہی کی سڑ سٹھویں آیت میں ارشاد قدرت ہوتا ہے کہ ہر امّت کے لئے ایک طریقہ عبادت ہے جس پر وہ عمل کر رہی ہے لہذا اس امر میں ان لوگوں کو آپ سے جھگڑا نہیں کرنا چاہیئے اور آپ انہیں اپنے پروردگار کی طرف دعوت دیں کہ آپ صراط مستقیم پر ہیں جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ ان آیات سے مراد قربانی ہے یعنی جانوروں کی قربانی گذشتہ امتوں میں رائج تھی اور حج میں قربانی کے شرایط میں شمار ہوتی تھی ۔
قرآن کریم کے مطابق بعض قومیں اپنے بچوں کوذبح اور قربان کیا کرتی تھیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اس عمل کو منسوخ کرنے کے لئے اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے کے لئے بڑھے پھر جب وہ فرزند ان کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کے قابل ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹا میں خواب میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہیں ذبح کررہا ہوں اب تم بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال ہے فرزند نے جواب دیا کہ بابا جو آپ کو حکم دیا جارہا ہے اس پر عمل کریں انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے پھر جب دونوں نے سر تسلیم خم کردیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹادیا تا کہ اسماعیل کو قربان کریں کہ حکم خدا سے دنبہ آجاتا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام اسماعیل کے بجائے دنبہ کو ذبح کردیتے ہیں۔
ارشاد باری تعالی ہوتا ہے کہ ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم تم نے اپنا خواب سچ کر دکھایا ہم اسی طرح حسن عمل والوں کو جزا دیتے ہیں بے شک یہ بڑا کھلا ہوا امتحان ہے اور ہم نے اس کا بدلہ ایک عظیم قربانی کو قرار دے دیا ہے “ ۔ اگر چہ حضرت ابراہیم نے کامل طور سے اس عمل کو تبدیل کرنے کے لئے پہلے خداوند عالم سے حکم حاصل کیا تاکہ اپنے بیٹے اسماعیل کو ذبح کریں اور حضرت اسماعیل بھی قربانی کے حکم میں تسلیم ہوگئے اور اپنی رضایت کا اعلان کیا یہاں تک کہ حضرت اسماعیل نے قربان ہونے کے لئے اپنی پیشانی کو زمین پر رکھ دیا لہذا حضرت ابراہیم اور اسماعیل کے ایمان و خلوص کے درجات کے آشکار ہونے کے بعد خداوند عالم نے حضرت اسماعیل کی جگہ دنبہ بھیج دیا ۔
قرآن کریم میں ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد جاہلیت کے زمانے میں بھی قربانی رائج تھی اور یہ لوگ اپنی قربانیوں کو بتوں کے سامنے پیش کیا کرتے تھے ۔ جب کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حج کے اعمال میں جو قربانی قائم کی تھی وہ خداوند عالم کے لئے تھی قرآن کریم آواز دے رہا ہے " اور اس وقت کو یاد کرو جب ہم نے ابراہیم کے لئے بیت اللہ کی جگہ مہیا کی کہ خبردار ہمارے بارے میں کسی طرح کا شرک نہ ہونے پائے اور تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والے ,قیام کرنے والے اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک و پاکیزہ بنادو ،اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کردو کہ لوگ تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواریوں پر دور دراز علاقوں سے سوار ہوکر آئیں گے ، تاکہ اپنے منافع کا مشاہدہ کریں اور چند معین شدہ ایام میں ان چوپایوں پر جو خدا نے بطور رزق عطا کئے ہیں خدا کا نام لیں اور پھر تم اس میں سے کھاؤ اور بھوکے محتاج افراد کو کھلاؤ “ ۔
قرآن کریم کی نظر میں صرف وہ قربانی قابل قبول ہے جو فقط خداوند عالم کے لئے کی گئی ہو اور اس شخص نے صرف خداوند عالم سے تقرب حاصل کرنے کے لئے قربانی کی ہو ۔ائمہ معصومین علیہم السلام کے کلام میں ملتا ہے کہ اگر کسی کے پاس قربانی کرنے کے لئے پیسہ نہ ہو تو وہ قرض لے کر قربانی کرے اوراس سنت کو انجام دے۔ کتاب المراقبات میں عید قربان کے روز قربانی کی فضیلت کے بارے میں ذکر ہوا ہے : کہ اس دن کے بہترین اعمال میں سے ایک قربانی ہے جس کو انجام دینے میں بندگی کے قوانین اور ادب کی رعایت کرنا چاہئے یاد رہے کہ اس دن قربانی نہ کرنا اورخدا کی راہ میں تھوڑا سا مال بھی ایثار نہ کرنا خسارے اور نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
خداوند عالم نے قربانی کو معاشرہ کے اتحاد و اتفاق کے عنوان سے پیش کیا ہے تاکہ امتوں اور قوموں کے درمیان اتحاد و انسجام قائم ہوجائے اور معاشرہ کے افراد مختلف شکلوں میں ایک دوسرے سے متصل ہوجائیں ۔ خصوصا تمام افراد اس قربانی سے استفادہ کریں اور اس کا گوشت تناول فرمائیں اور اس کے ذریعے امتوں اور قوموں میں مہر و محبت زیادہ ہوجائے.