دنیا سے پلاسٹک کا خاتمہ کب ہوگا؟
ایک عرصے سے جس کی ضرورت محسوس کی جارہی تھی وہ تاریخ ساز معاہدہ سامنے آگیا ہے کہ اب دنیا کے 175 ممالک نے سیارہ زمین پر پلاسٹک کی تیاری اور استعمال پر پابندی عائد کرنے پر دستخط کردیئے ہیں۔
اس معاہدے کی رو سے دستخط کرنے والے 175 ممالک پلاسٹک سازی، استعمال اور اسے ٹھکانے لگانے کے تمام مراحل پر ماحول دوستی یا پائیدار عمل کے پابند ہوں گے۔ اس لیے تمام ممالک اس کے قانونی طور پر پابند بھی ہیں۔ یعنی پلاسٹک کی پوری سپلائی چین کو روکا جائے گا۔ اس موقع پر اقوامِ متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام کے سربراہ اینگر اینڈرسن نے اسے ’پیرس معاہدے 2015 کے بعد سب سے بڑا ماحولیاتی معاہدہ‘ قرار دیا ہے۔
کینیا کے شہر نیروبی میں منعقدہ اقوامِ متحدہ ماحولیاتی اسمبلی (یو این ای اے) میں یہ اعلان ہوا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک1950 میں اس کی ایجاد کے بعد اب تک 9 ارب ٹن پلاسٹک تیار کرچکے ہیں جو اب فضا، زمین، سمندر، کھیتوں اور ہر مقام کے لیے ایک وبال بن چکا ہے۔ اب اس معاہدے کے اطلاق پر غور ہوگا اور 2024 سے اس پر عملدرآمد شروع ہوجائے گا۔
پابندی کی تفصیلات کے تحت دو طریقہ کار پیش کئے گئے اور ان میں سے جو بہتر تھا اس کی منظوری دی گئی۔ روانڈا اور پیرو نے معاہدہ پیش کیا کہ پابندی پلاسٹک کے تیاری، استعمال اور پیداوار اور ٹھکانے لگانے کے عمل پر ہونی چاہیے۔ جبکہ جاپان نے کہا کہ صرف سمندروں میں پلاسٹک پر پابندی عائد ہونی چاہیے۔ لیکن اکثریت نے پہلے معاہدے کو بہتر قرار دیا اور منظورکرلیا گیا۔
تاہم غریب ممالک نے اعتراض کیا کہ امیر ممالک یہ تبدیلی جلد اختیار کرلیں گے جبکہ غریب ممالک کو مالی مدد کی ضرورت ہوگی۔
اینگر اینڈرسن کے مطابق معاہدہ قانونی پابندی پر مبنی ہے۔ اس میں مالیاتی مدد کا عنصر ہے۔ بعض ممالک اسے آسانی سے اپنا سکتےہیں اور یہی اس کا اہم پہلو بھی ہے۔ اس سے قبل مونٹریال پروٹوکول سے اوزون گیس کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی پھر مینا میٹا کنونشن سے پارے کے استعمال کو روکا گیا۔ ان دونوں معاہدوں کے شاندار اثرات سامنے آئے جو ہمارے لیے حوصلہ افزا ہیں۔
اب ہمارا یہ حال ہے کہ ہرسال لاکھوں کروڑوں ٹن پلاسٹک پیدا ہورہا ہے جو ہزاروں سال میں بھی ختم نہیں ہوگا۔ ایک مرتبہ استعمال کے پلاسٹک سے ہر مقام پر اس کی آلودگی خوفناک صورت اختیار کرچکی ہے کیونکہ پلاسٹک کی بہت معمولی مقدار ہی ری سائیکل کی جاتی ہے۔
لاتعداد ارضی اور سمندری جاندار پلاسٹک سے مررہے ہیں ۔ دوسری جانب پلاسٹک کے باریک ذرات اب سانس کی بدولت پورے جسم میں جارہے ہیں اور بچوں کی آنول نال میں بھی دیکھے گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک کی پیداوار کو پہلے مرحلے پر ہی روکنے کی ضرورت ہے۔
لیکن مکمل پابندی سے قبل دنیا کو اس کے متبادل، اس سے وابستہ روزگار کے دوسرےطریقوں اور کئی اہم معاملات پر غور کرنا ہوگا۔ دنیا کے تمام ممالک پر سوچنے کے لیے ابھی دو سے تین سال کا وقت موجود ہے۔