May ۳۰, ۲۰۲۵ ۱۹:۵۴ Asia/Tehran
  • جوہری ہتھیار کا حصول کبھی ایران کی پالیسی کا حصہ نہیں رہا نہ ماضی میں، نہ اب اور نہ آئندہ: صدر پزشکیان

ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے کہا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار کے خلاف ہے تاہم یورینیم کی افزودگی کے قانونی حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔

سحرنیوز/ایران: ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے یورینیم کی افزودگی کے سلسلے میں ایران کے موقف کا اعادہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ این پی ٹی کے تحت ایران کو پرامن مقاصد کے لئے یورینیم کی افزودگی کا حق حاصل ہے اور ایران اپنے اس حق سے کبھی دستبردار نہیں ہوگا۔ عمانی سرکاری ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایران کا مؤقف ہے کہ اس کی جوہری سرگرمیوں کا معیار بین الاقوامی قوانین ہیں۔ ان قوانین کے مطابق ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے خاص طور پر سائنسی تحقیق اور توانائی کے میدان میں یورینیم کی افزودگی سمیت جوہری ٹیکنالوجی پر کام کرے۔ اگر امریکہ کو ایران کے جوہری عزائم پر تشویش ہے تو اُسے یہ جان لینا چاہیے کہ ایران ، جوہری ہتھیار حاصل نہ کرنے کے فیصلے پر قائم ہے۔

رہبرِ انقلاب اسلامی کے واضح شرعی فتوے کی روشنی میں ایران نے کبھی جوہری ہتھیار بنانے یا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی، نہ ہی آئندہ کرے گا۔ ایران کی سرکاری پالیسی جس کا تعین حکومت اور قیادت کرتی ہے، ہمیشہ سے جوہری ہتھیاروں کی مخالفت پر رہی ہے اور یہ مؤقف ایران کے دفاعی نظریے کا بنیادی حصہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران اس بات پر بھی آمادہ ہے کہ وہ خطے اور دنیا کو یہ یقین دہانی کرانے کے لیے ہر قسم کی شفافیت اور تعاون فراہم کرے کہ جوہری ہتھیار کا حصول کبھی ایران کی پالیسی کا حصہ نہیں رہا نہ ماضی میں، نہ اب اور نہ آئندہ۔

دوسری جانب ایران کبھی بھی یورینیم کی پرامن افزودگی جیسے کہ علاج، بیماریوں کی تشخیص، صحت عامہ، زراعت اور صنعتی مقاصد کے لیے، ترک نہیں کرے گا، کیونکہ یہ اس کا بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حق ہے۔ کوئی ملک ایران کو یہ کہنے کا حق نہیں رکھتا کہ وہ افزودگی سے باز رہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی تمام انسانیت کا مشترکہ اثاثہ ہیں اور کوئی ملک دوسرے ملک کو اس سے محروم نہیں کر سکتا۔ صدر مملکت پزشکیان نے مغربی ممالک کے کردار پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو ممالک انسانی حقوق کا نعرہ لگاتے ہیں، وہی ایران کے سائنس دانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ خطے میں خواتین، بچوں، بوڑھوں اور عام شہریوں پر بم برساتے ہیں۔ ایسے عناصر ایران کو دہشت گرد کہنے کی جسارت کرتے ہیں، حالانکہ اصل خطرہ وہ خود ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حقیقی خطرہ خطے کے لیے اسرائیل ہے یا اسلامی جمہوریہ ایران؟

ایرانی صدر نے ایک بار پھر عالمی برادری اور اسلامی دنیا سے سوال کیا ہے کہ کیا واقعی یہ قابل قبول ہے کہ کوئی کھلے عام نہتے عوام پر بمباری کرے؟ ایسے افراد کو نشانہ بنائے جو نہ ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں نہ کسی جنگ میں شریک ہیں۔ ان کے گھروں کو منہدم کرے، اسپتالوں اور جامعات کو تباہ کرے، سرحدیں بند کر دے، اور انسان دوستانہ امداد، دوا اور غذا تک ضرورت مندوں کو نہ پہنچنے دے؟ یہ دنیا جو خود کو مہذب اور ترقی یافتہ کہتی ہے، ان مظالم کو دیکھ کر کیسے خاموش رہ سکتی ہے؟ کون سا بیدار ضمیر انسان ایسی تباہ کاریوں کو قبول کرے گا؟
انہوں نے زور دیا کہ اسلامی ممالک کو مل کر ان مظلوموں، خاص طور پر غزہ اور لبنان کے عوام کی فریاد کو دنیا تک پہنچانا چاہیے۔ آج نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ یورپ اور خود امریکہ کے عوام بھی ان مظالم پر آواز بلند کر رہے ہیں۔

 

ٹیگس