آیت کا پیغام (10): احسان
یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ (سورہ بقرہ ۔آیت 264)
…میں نے ہی تو تمہیں اس لائق بنایا…
…یہ سب میرا ہی تو دیا ہوا ہے…
…تم بھول گئے میں نے تمہیں کہاں سے کہاں پہونچا دیا…
…تم میرے دئے ہوئے مال پر اتراتے ہو…
…تمہارے بس کا کچھ نہیں تھا،اگر میں نہ ہوتا تو تم ختم ہو گئے ہوتے!
…میں تھا جو برے وقت میں تمہارے کام آیا…
اس قسم کے جملے اگر کہیں سنے جاتے ہیں تو اس اسلامی نقطہ نظر سے انہیں اچھا نہیں سمجھا جاتا اور کہا جاتا ہے کہ اگر تم نے کسی کے ساتھ نیکی اور احسان کیا ہے تو اسے جتانے کی ضرورت نہیں ہے۔احسان جتانا کوئی اچھی بات نہیں ہوتی۔
ارشاد ہوتا ہے :
یَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ (سورہ بقرہ ۔آیت 264)
اے ایمان لانے والو! اپنے صدقات کو احسان جتا کر اور دکھ دے کر خاک میں نہ ملا دو!
مگر یہی کام اگر خدا کی جانب سے ہو تو وہ برا نہیں ہوتا۔ قرآن کریم میں متعدد آیات میں خدا نے بندوں پر اپنے احسان کا ذکر کیا ہے۔ان میں سے چند ایک احسان ہیں جو خدا نے اپنے حبیب پر کئے ہیں جنہیں سورہ ضحیٰ میں ذکر کیا گیا ہے۔ان میں سے ایک عظیم احسان جو خدا نے اپنے حبیب پر کیا وہ ایسا ہے جس کا وسیلہ ام المومنین حضرت خدیجہ (سلام اللہ علیہا) جیسی مومنہ اور فداکار خاتون قرار پائیں۔
ارشاد ہوتا ہے:
وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَىٰ (سورہ ضحیٰ۔ آیت 8)
تمہارے رب نے تمہیں جب نادار پایا تو پھر کیا مالدار نہیں بنا دیا؟!ا
مفسرین نے اس آیت کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس آیت کی ایک مصداق ام المومنین حضرت خدیجہ علیہا سلام ہیں۔اس سے زوجۂ مصطفیٰ (ص) ،مادر زہرا (س) حضرت خدیجۃ الکبریٰ علیہا سلام کی عظمت بخوبی روشن ہو جاتی ہے۔
تحریر:سید باقر کاظمی