مسلسل گناہ كرنے والا امام (ع) سے نہيں بلكہ اپنى خواہشات سے محبت كرتا ہے
امام جعفر صادق عليہ السلام سے منقول ہے :
عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ رَفَعَهُ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع إِنَّ قَوْماً مِنْ مَوَالِيكَ يُلِمُّونَ بِالْمَعَاصِي وَ يَقُولُونَ نَرْجُو فَقَالَ كَذَبُوا لَيْسُوا لَنَا بِمَوَالٍ أُولَئِك قَوْمٌ تَرَجَّحَتْ بِهِمُ الْأَمَانِيُّ مَنْ رَجَا شَيْئاً عَمِلَ لَهُ وَ مَنْ خَافَ مِنْ شَيْءٍ هَرَبَ مِنْهُ ۔
ترجمہ:
راوى كہتا ہے كہ ميں نے امام جعفرصادق عليہ السلام سے دريافت كيا كہ آپ سے محبت كرنے والوں ميں ايك گروہ ہے جو گناہوں كو مسلسل اصرار كے ساتھ انجام ديتے ہيں اور كہتے ہيں كہ ہميں اميد ہے (كہ مثلا اللہ معاف فرمائے گا يا شفاعت ہو جائے گى) ۔
امام عليہ السلام نے فرمايا : وہ جھوٹ بولتے ہيں ، وہ ہمارے موالى اور ہم سے محبت كرنے والے نہيں ہيں، يہ تو وہ قوم ہے جن پر ان كى خواہشات غالب آ گئيں ، جو شخص كسى شىء كى اميد ركھتا ہے اس كو حاصل كرنے كا عمل انجام ديتا ہے اور جو كسى شىء سے ڈرتا ہے اس (خوفناك شىء) سے بھاگتا ہے۔
حوالہ :
الكافى، ج 2، ص 68، باب الخوف الرجاء، حديث : 6۔
لمحہ غور و فكر:
1۔ انسانى طبيعت كا تقاضا ہے كہ وہ جس شىء كو چاہتا اور اس كے ملنے كى اميد ركھتا ہے اس كو حاصل كرنے كى ضرور كوشش كرتا ہے۔ انسان جب بھى ايك شىء اپنى ضرورت محسوس كرے گا اور اس شىء كے ملنے يا حاصل كرنے كى اس كو توقع و اميد نظر آئے گى خود بخود انسان اس كو حاصل كرنے كے ليے بڑھے گا۔ يہ انسانى مزاج مسلم غير مسلم ، چھوٹے بڑے سب ميں يكساں ہے ۔ امام عليہ السلام نے انسانى خلقت كے اسى پہلو سے دليل كو قائم كيا ہے ۔
2۔ ہر دور ميں امام عليہ السلام سے محبت و عشق كا دعوى كرنے والے اور ان كا نام سُن كر وَجَد كى كيفيت برپا كرنے والوں ميں ايسے افراد بھى رہے ہيں جو مسلسل گناہِ صغيرہ يا كبيرہ كو انجام ديتے ہيں، مثلا داڑھى كو مسلسل منڈوانا، بے حجاب رہنا، گانے سننا، گالم گلوچ كرنا ، فحش تصاوير و فلميں ديكھتے رہنا، حرام مال كھانا ۔۔۔ وغيرہ وغيرہ۔۔ انہى لوگوں كو جب گناہ سے باز آنے كا كہا جائے تو بڑى خود اعتمادى كے ساتھ سينہ پھلاتے ہوئے يقين كى كيفيت كے ساتھ كہتے ہيں كہ اللہ بڑا رحيم كريم ہے !!! جب امام صادق عليہ السلام كے سامنے ايسے لوگوں كا ذكر ہوا تو امام عليہ السلام نے فرمايا يہ جھوٹے لوگ ہمارے موالى اور ہم سے محبت كرنے والے نہيں ہيں، يہ جھوٹ بولتے ہيں۔ حقيقت ميں يہ لوگ اپنے نفس اور اپنى خواہشاتِ نفسانى سے محبت و عشق كرتے ہيں اور اس كى مخالفت كو مول لينے كے ليے آمادہ تيار نہيں ہيں۔
3۔ اس روايت سے ہميں امام عليہ السلام سے محبت كرنے والے كا معيار معلوم ہو گيا كہ جو شخص مسلسل گناہ كرے اور ساتھ ساتھ محبتِ امام ع كا دعوى كرے تو وہ شخص جھوٹا اور كاذب ہے ۔ كيونكہ محبتِ امام عليہ السلام نور ہے اور گناہ ظلمت و تاريكى، نور اور ظلمت كيسے ايك جگہ جمع ہو سكتا ہے ؟!!
4۔ انسان كو جس ذات سے محبت ہوتى ہے اس كو خوش كرنے اور اس كے مطابق اپنے آپ كو ڈھالنے كى كوشش كرتا ہے۔ مسلسل گناہ كرنے والا زبان سے يہ كہتا ہے كہ اس كو امام عليہ السلام سے محبت ہے جبكہ وہ تمام ايسے كام كرتا ہے جس سے امام عليہ السلام سينہ خون كے آنسو روتا ہے اور امام عليہ السلام جس شى سے انتہائى نفرت كرتے ہيں۔ پس اگر اس كو محبت ہوتى تو وہ امام عليہ السلام كو ناراض كرنے والے امور انجام نہ ديتا۔ حقيقت ميں مسلسل گناہ كرنے والے كو گناہ سے محبت اور عشق ہے اس ليے اس كو ترک كرنا نہيں چاہتا۔
۵۔ اگر انسان كو واقعا اللہ تعالى سے اميد و توقع ہے كہ اللہ تعالى اس كى تمام سياہ كارياں اور ناپاک دامن بخش دے گا تو وہ ضرورت اور اميد كے فلسفہ كے تحت پہلى فرصت ميں اللہ تعالى سے رجوع اور توبہ كرے گا اور اپنے ناپاک آلودہ نفس كو طاہر و پاک كرنے كى كوشش كرتے ہوئے گناہوں كى ظلمتوں اور نجاست سے چھٹكارا حاصل كرنے كى كوشش كرے گا۔