Mar ۱۷, ۲۰۲۱ ۱۰:۴۹ Asia/Tehran
  • حسین (ع)، حُسنِ کردار کا پیکر

3، 4 اور 5 شعبان المعظم کو بالترتیب فرزند رسول سید الشہدا امام حسین علیہ السلام، فرزند علیؑ حضرت ابوالفضل العباس علیہ السلام اور فرزند حسینؑ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت با سعادت کی تاریخ ہے۔ امام حسین علیہ السلام 3 شعبان سنہ 4 ہجری، حضرت عباس علیہ السلام 4 شعبان سنہ 26 ہجری اور حضرت زین العابدین علیہ السلام 5  شعبان سنہ 38 ہجری میں مدینۂ منورہ میں پیدا ہوئے۔

 آئیے اس مختصر تحریر میں فرزند نبوت و امامت امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ کے بعض گوشوں پر ایک سرسری نظر ڈالتے ہیں:

فرزند رسول امام حسین علیہ السلام کو عبادت خدا، تلاوت قرآن کریم اور توبہ و استغفار سے خاص لگاؤ تھا۔ بسا اوقات آپ دن بھر میں کئی سو رکعات نماز پڑھا کرتے تھے۔ (عقد الفريد, ج 3, ص 143)

یہاں تک کہ آپ نے اپنی حیات طیبہ کی آخری شب کہ جب آپ اپنے خونخوار دشمن کے نرغے میں گھرے ہوئے تھے، اُس وقت بھی آپ عبادت و تلاوت سے دستبردار نہیں ہوئے اور فرمایا کہ خدا جانتا ہے کہ مجھے نماز، تلاوت قرآن اور دعا و راز و نیاز سے کتنا لگاؤ ہے۔(ارشاد مفيد, ص 214.)

اپنی حیات مبارک میں آپ بارہا پاپیادہ حج پر گئے۔ (مناقب ابن شهرآشوب , ج 3, ص 224 - اسد الغابة , ج 2, ص 20.) اہلسنت کے معروف عالم دین ابن اثیر اپنی کتاب اُسد الغابہ میں تحریر کرتے ہیں: حسین (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) بکثرت روزے رکھتے، نماز پڑھتے، حج پر جاتے، صدقہ دیتے اور تمام کارہائے خیر انجام دیتے تھے؛ كان الحسين رضى الله عنه فاضلا كثير الصوم و الصلوة و الحج و الصدقة و افعال الخير جميعها. (اسد الغابة , ج 2, ص 20.)

ایک روز آپ ایک مقام سے گزر رہے تھے، آپ نے دیکھا کہ کچھ فقرا اپنی عبا زمین پر بچھا کر اُس پر بیٹھے سوکھی روٹیاں کھا رہے ہیں۔ انہوں نے جب امام حسین علیہ السلام کو آتے دیکھا تو آپؑ کو بھی ساتھ میں کھانا کھانے کو کہا۔ آپ نے بلا فاصلہ انکی دعوت کو قبول کیا اور اُن کے ساتھ کھانے کے لئے زمین ہر بیٹھ گئے اور فرمایا: ان الله لا يحب المتكبرين (سورہ نحل۔ آیت ۲۲) پھر اُس کے بعد فرمایا: میں نے تمہاری دعوت کو قبول کر لیا اب تم لوگوں کو بھی میری دعوت قبول کرنا ہوگی۔ اسکے بعد ان لوگوں نے بھی امام حسین علیہ السلام کی دعوت کو قبول کیا اور آپ کے ہمراہ آپ کے بیت الشرف تک گئے۔ فرزند رسول نے اہل خانہ سے کہا کہ جو کچھ ہے وہ ان لوگوں کی ضیافت اور مہمان نوازی کے لئے لایا جائے۔ (تفسير عياشى , ج 2, ص 257.)

شعیب بن عبد الرحمٰن خزاعی نے نقل کیا ہے: جب حسین ابن علی علیہ السلام کربلا میں شہید کر دئے گئے، آپ کی شہادت کے بعد لوگوں نے دیکھا کہ آپ کی پشت مبارک پر گٹے پڑے ہوئے ہیں۔لوگوں نے اسکی وجہ آپؑ کے فرزند امام زین العابدین علیہ السلام سے دریافت کی۔ حضرت سجاد علیہ السلام نے فرمایا: یہ گٹے اور نشانات اُن بوریوں اور تھیلوں کے باعث ہیں جنہیں آپ شب کی تاریکی میں پشت پر اٹھاتے اور انہیں جاکر بیواؤں، یتیموں اور فقیروں کے گھروں تک پہنچاتے تھے۔ (مناقب , ج 2, ص 222)

بنی امیہ کے حکام کے سامنے آپ کی دیدہ دلیری  اور غیرت و حمیت زباں زد خاص و عام رہی۔ نقل ہوا ہے کہ بدنام زمانہ عیاش یزید ملعون نے اپنی ولیعہدی کے زمانے میں ایک شوہر دار خاتون پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کی۔ جس وقت اسکی اطلاع فرزند حیدرؑ امام حسین علیہ السلام کو ملی تو آپ فورا حرکت میں آئے اور حاکم شام اور اسکے جابر، بے دین اور عیاش بیٹے یزید سے مرعوب ہوئے بغیر اس خاتون کو بنی امیہ کے شہوت پرست حیوان سے نجات دلائی اور اس طرح امت اسلامیہ کی ناموس کے سلسلے میں اپنی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا۔ (الامامة والسياسة , ج 1, ص 253)

شیخ عبد اللہ علائلی ایک اہل سنت عالم دین ہیں۔ انہوں نے حضرت سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اور آپ کے قیام عاشورا کے سلسلے میں ایک گرانقدر کتاب ’’سموالمعنافی سموالذات‘‘ تحریر کی ہے۔ وہ اپنی اس کتاب میں لکھتے ہیں:

تاریخ میں ہم ایسی بہت سی شخصیات کو دیکھتے ہیں کہ جو کسی ایک خاص نمایاں صفت یا فضیلت کی بنیاد پر دنیا میں پہچانے جاتی ہیں،کوئی شجاعت و بہادری، تو کوئی زہد و پارسائی، کوئی سخاوت و عطا تو کوئی کسی اور نمایاں صفت کی بنیاد پر معروف ہوا۔ مگر امام حسین علیہ السلام کی شخصیت اس قدر با عظمت ہے کہ اُس میں تمام فضائل و کمالات کے گوشے موجود ہیں اور آپ کی ہستی اپنے اندر ہر قسم کی فضیلت و کمال کو سمیٹے ہوئے ہے۔ (كتاب سمو المعنى , ص 104)

ماخذ: بیتوتہ ویب سائٹ

ترجمہ و ترتیب: سید باقر کاظمی

 

 

ٹیگس