Feb ۲۶, ۲۰۲۲ ۱۱:۲۸ Asia/Tehran

تاریخ گواہ ہے کہ 24 رجب سنہ 7 ہجری کو جب جنگ خیبر کا معرکہ سجا ہوا تھا تو علمدار لشکر نبوی، حیدر کرار، حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام نے جنگ کرتے ہوئے یہودیوں کے عظیم قلعے خیبر کے در کو اکھاڑ کر اُسے سپر کے طور پر استعمال کیا۔ اسی مناسب سے ملاحظہ فرمائیے قلعۂ خیبر کی ایک نادر ویڈیو جسے کئی برس قبل ایک ہیلی کاپٹر سے بنایا گیا ہے۔

 غزوہ خیبر رسول خداؐ کے غزوات میں سے ایک ہے جو سنہ 7 ہجری میں خیبر کے علاقہ میں پیش آیا۔ خیبر آج مدینہ سے 165 کلومیٹر شمال کی جانب شام کی طرف جانی والی سڑک (شاہراہ تبوک) پر واقع ہے اور اس کا مرکز الشُرَیف کہلاتا ہے۔

قلعۂ خیبر
قلعۂ خیبر

  یہ علاقہ متعدد دیہاتوں اور ہرے بھرے کھیتیوں کا مجموعہ ہے جو خیبر ہی کے نام سے دیہی علاقہ ہے اور سطح سمندر سے 854 میٹر کی بلندی پر سنگستان میں واقع ہوا ہے۔ خیبر بڑی بڑی وادیوں پر مشتمل ہے؛ پانی کی فراوانی ہے؛ زرعی علاقہ ہے اور یہاں کی آبادی بھی اچھی خاصی ہے۔ خیبر کی زیادہ تر پیداوار کھجوروں پر مشتمل ہے۔ خیبر کے باشندے زیادہ تر قبیلہ عنزہ سے تعلق رکھتے ہیں جو سُریر نامی گاؤں اور غَرَس سے نورشید تک جانے والی پوری وادی میں سکونت پذیر ہیں۔

قلعۂ خیبر

 غزوہٴ خیبرخیبر یہودیوں کی مضبوط ترین عسکری اساسگاہ تھی کہ جس میں دس ہزار سے زیادہ جنگجو سپاہی مقیم تھے۔ رسول خدا نے فیصلہ کیا کہ سب سے پہلے اس جگہ کو ان کے وجود سے پاک کیا جائے۔ چنانچہ ماہ محرم سنہ ۷ ہجری میں سولہ سو جنگ آزما سپاہیوں کو ساتھ لے کر آپ مدینہ سے خیبر کی جانب روانہ ہوئے اور راتوں رات ان کے قلعوں کا محاصرہ کرلیا۔ اس لشکر کے پرچمدار بھی حضرت علی علیہ السلام ہی تھے۔قلعہ داروں نے یہ فیصلہ کیا کہ اہل و عیال کو ایک قلعے میں اور ساز و سامان و خوراک دوسرے قلعے میں جس کا نام ”امن“ تھا محفوظ کر دیں۔ اس اقدام کے بعد انہوں نے ہر قلعے کے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ مسلم سپاہ کو قلعے کے اندر داخل ہونے سے روکیں۔ اور اگر ضرورت پیش آئے تو اس دشمن سے جو قلعے کے باہر موجود ہے جنگ کریں۔ (مغازی ج۲ ص ۶۳۷)

قلعۂ خیبر

سپاہ اسلام نے دشمن کے سات قلعوں میں سے پانچ قلعے فتح کرلیے جس میں تقریباً پچاس مجاہدین اسلام زخمی ہوئے اور ایک کو شہادت نصیب ہوئی۔باقی دو قلعوں کو فتح کرنے کے لیے رسول خدا (ص) نے پہلے خلیفہ اول ابوبکر کو پرچم دیا مگر انہیں اس مقصد میں کامیابی نصیب نہ ہوئی، پھر اگلے دن خلیفہ دوم عمر کو سپاہ کی فرمانداری دی گئی لیکن وہ بھی کامیاب نہ ہوسکے۔ اسکے بعد تیسرے دن حضرت پیغمبر اسلام نے حضرت علی علیہ السلام کو قلعہ فتح کرنے کے لیے مقرر کیا۔ آپ نے پرچم سنبھالا اور دشمن پر حملہ کرنے کے لیے روانہ ہوگئے۔ یہود کے بہادروں میں ”مرحب“ کا نام شجاعت و دلیری میں شہرت یافتہ تھا وہ زرہ و فولاد میں غرق قلعے سے نکل کر باہر آیا۔ دو جانبازوں کے درمیان نبرد آزمائی شروع ہوئی۔ دونوں ایک دوسرے پر وار کرتے اور کاری ضرب لگاتے رہے۔ اچانک حضرت علی کی شمشیر براں مرحب کے سر پر پڑی۔ جس کے باعث اس کے خود اور استخوانِ سر کے دو ٹکڑے ہوگئے۔

قلعۂ خیبر

مرحب کے ساتھیوں نے جب یہ منظر دیکھا تو ان کے حوصلے پست ہوگئے چنانچہ فرار کرکے قلعے میں پناہ گزیں ہوئے۔ جہاں انہوں نے اپنے اوپر اس کا دروازہ بھی بند کرلیا اور حضرت علی علیہ السلام نے اپنی روحانی طاقت اور قدرت خدا کی مدد سے قلعے کے اس دروازے کو جسے کھولنے اور بند کرنے پر بیس آدمی مقرر تھے اکھاڑ لیا اور اسے باہر بنی ہوئی خندق پر رکھ دیا تاکہ سپاہی اس پر سے گزر کر قلعے میں داخل ہوسکیں۔امیرالمومنین حضرت علی نے دشمن کے سب سے زیادہ محکم و مضبوط قلعہ کو فتح کرکے فتنہ خیبر کا خاتمہ کر دیا اور یہودیوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ اس جنگ میں پندرہ مسلمان شہید اور ترانوے یہودی تہ تیغ ہوئے۔ (غازی ج۲ ص ۷۰۰)

(ماخذ: ویکی شیعہ اور مکارم ڈاٹ آئی آر)

ٹیگس