پناہ گزینوں کے بحران کے حل پر بان کی مون کی تاکید
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پناہ گزینوں کے بحران کو حل کرنے کے لیے عالمی سطح پر اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
بدھ کے روز جنیوا میں پناہ گزینوں کے بارے میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے کہا کہ "ہم یہاں اپنے زمانے کے پنا ہ گزینوں کے سب سے بڑے بحران پر بات کرنے کے لیے اکھٹا ہوئے ہیں اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے عالمی حمایت میں اضافے کی ضرورت ہے".
جنوبی کوریا سے تعلق رکھنے والے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اس کانفرنس میں ساٹھ سال پہلے جنگ کوریا کے دوران، چھے برس کی عمر میں اپنے فرار کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پنا ہ گزین کیمپوں اور پناہ گزینوں کی مشکلات سے وہ پوری طرح آگاہ ہیں اور انہیں اس کا ذاتی تجربہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کو برا بنا کر پیش کرنے کی کوشش نہ صرف ان کی توہین ہے بلکہ بنیادی طور پر غلط بھی ہے۔
جنیوا کانفرنس فروری میں لندن میں ہونے والی کانفرنس کا تسلسل ہے جس میں شریک ملکوں نے پناہ گزینوں کے قیام کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے گیارہ ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیناں کا کہنا ہے کہ شام میں چار سال سے جاری بدامنی کے سبب اڑتالیس لاکھ شامی باشندے دیگر ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں جبکہ چھیاسٹھ لاکھ شامی شہری اپنے ہی ملک میں دربدر ہوئے ہیں۔
جنیوا اجلاس کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ تین برسوں کے دوران دس فی صد شامی پناہ گزینوں یعنی تقریبا چار لاکھ اسی ہزار لوگوں کو سر چھپانے کے لیےمستقل جگہ فراہم کی جائے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ عراق، اردن، لبنان اور ترکی میں مقیم پناہ گزینوں کے مقابلے میں چار لاکھ اسیّ ہزار لوگوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے۔
یہ کانفرنس ایسے وقت میں منعقد ہو رہی ہے جب سترہ مارچ کو یورپی یونین اور ترکی نے پناہ گزینوں کو یورپ سے ترکی واپس منتقل کرنے کے ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے پناہ گزیناں نے معاہدے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس معاہدے میں قانونی طور پر پناہ حاصل کرنے والوں کے حقوق کو نظر انداز کیا گیا ہے۔
گزشتہ سال دس لاکھ سے زیادہ پنا ہ گزین جن میں آدھی سے زیادہ تعداد شامی شہریوں کی تھی، بحیرہ روم کے راستے یورپ میں داخل ہوئے تھے۔ رواں سال کے پہلے تین ماہ کے دوران بھی یہ صورتحال برقرار ہے۔
بہت سے پناہ گزین سمندر کے راستے خطرناک سفر کے دوران اپنی جانوں سے ہاتھ بھی دھو بیٹھے ہیں۔
بعض یورپی ملکوں نے پناہ گزینوں کے داخلے کو روکنے کے لیے اپنی سرحدیں عارضی طور پر بند کر دی ہیں۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور تنظیموں نے یورپی ملکوں کے سربراہوں سے اپیل کی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کو بسانے کے لیے مربوط اور منظم منصوبہ بندی سے کام لیتے ہوئے اس بحران پر قابو پانے کی کوشش کریں۔