عراقی تارکین وطن کی ملک بدری کی مخالفت
امریکی عدالت نے فیصلہ سنایا ہے کہ حکومت پچھلے ماہ گرفتار کئے گئے 200 کے قریب عراقی تارکین وطن کو فوری طور سے ملک بدر نہیں کرسکتی۔
امریکی ڈسٹرکٹ جج مارک گولڈ اسمتھ نے مشی گن میں کہا کہ ان کے پاس حکومت کو یہ حکم دینے کا اختیارہے کہ جب تک امیگریشن عدالت میں ان کے ملک سے نکالے جانے کے مقدمات چل رہے ہیں عراقیوں کو ملک بدر نہیں کیا جائے ۔
اس سے قبل امریکی سپریم کورٹ نے صدرٹرمپ کے مسلمان ممالک کے شہریوں پر سفری پابندیوں کے حکم نامے کے خلاف مقامی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندی کا فیصلہ جزوی طور پر بحال کردیا جس کے بعد 6 مسلم ممالک سے مخصوص افراد کا امریکا میں داخلہ بند ہوجائے گا۔
عدالتی حکم نامے میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ ان غیر ملکیوں پر لاگو نہیں ہوگا جن کا کسی بھی امریکی شخص یا ادارے سے تعلق ہے یعنی وہ افراد جن کا امریکا میں کسی فرد یا ادارے سے تعلق ہے وہ امریکا جانے کے اہل ہوں گے تاہم دیگر غیر ملکیوں کو اس حکم نامے پر عمل کرنا ہوگا۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں کہا کہ رواں سال اکتوبر میں اس بات کا دوبارہ جائزہ لیں گے کہ آیا صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کو جاری رہنا چاہیے یا نہیں اور ضرورت پڑنے پر عدالت اپنا فیصلہ واپس لے سکتی ہے۔
واضح رہےکہ امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نے جنوری اور مارچ 2017 میں 6 اسلامی ممالک ایران، صومالیہ، سوڈان، یمن، شام اور لیبیا کے افراد کے امریکا داخلے پر مکمل پابندی کے صدارتی آرڈر جاری کیے تھے جب کہ پناہ گزینوں پر بھی 120 روزہ پابندی عائد کرنے کا کہا گیا تھا جسے مقامی عدالت نے منسوخ کردیا تھا جس پر ٹرمپ انتظامیہ نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔