Jan ۲۹, ۲۰۲۰ ۲۲:۱۲ Asia/Tehran
  • عین الاسد چھاونی کے نقصانات کو چھپانے کی امریکا کی نئی کوشش

امریکی وزارت جنگ نے عراق میں اپنی چھاونی عین الاسد پر ایران کے میزائل حملے سے ہونے والے نقصانات کے بارے میں آہستہ آہستہ اعترافات کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے اب کہا ہے کہ اس حملے میں اس کے 50 فوجیوں کو دماغی چوٹ پہنچی ہے۔

پینٹاگن کے ترجمان تھامس کیمبل نے بدھ کی صبح ایک بیان جاری کرکے بتایا کہ آج تک 50 امریکی فوجیوں کو دماغی چوٹ پہنچنے کا پتہ لگایا جا چکا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان 50 امریکی فوجیوں میں سے 31 کا عراق میں علاج کرایا گیا جس کے بعد وہ اپنی ڈیوٹی پر واپس چلے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ باقی 18 فوجیوں کے مزید علاج کے لئے جرمنی پہنچا دیا گیا ہے جبکہ ایک کو کویت پہنچایا گیا جو علاج کے بعد اپنی ڈیوٹی پر لوٹ گیا۔

امریکا کی دہشت گرد فوج نے گزشتہ 3 جنوری کو بغداد ہوائی اڈے پر سپاہ قدس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی رضاکار فورس کے ڈپٹی کمانڈر ابو مہدی المہندس کو ان کے ساتھیوں کے ساتھ شہید کر دیا تھا۔

ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے 8 جنوری کو اس دہشت گردانہ حملے کا جواب دیتے ہوئے عراق میں امریکا کی عین الاسد چھاونی اور اربیل میں ایک امریکی ٹھکانے پر میزائل حملے کئے تھے۔

ایران نے کہا تھا کہ اس حملے میں تقریبا سو امریکی فوجی ہلاک ہوئے تھے تاہم امریکا نے کہا تھا کہ اس میزائل حملے میں اس کا کوئی فوجی زخمی تک نہیں ہوا۔

کچھ دنوں بعد پینٹاگن نے یہ اعتراف کیا کہ 11 فوجیوں کو میزائل حملے کی وجہ سے علاج کے لئے عراق سے کویت منتقل کیا گیا ہے۔

اس کے بعد اب منگل کے روز امریکا نے پھر اعتراف کیا کہ ان 11 فوجیوں کے علاوہ بھی کئی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔

اس کے بعد امریکا کی وزارت دفاع نے بتایا کہ ایران کے میزائل حملے میں 34 امریکی فوجی زخمی ہوئے اور اب پینٹاگن کا کہنا ہے کہ ایران کے حملے سے متاثر ہونے والے فوجیوں کی تعداد 50 ہے۔

کچھ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ عراق میں امریکی چھاونی عین الاسد پر ایران کے میزائل حملوں سے ہلاک ہونے والے فوجیوں کو افغانستان منتقل کر دیا گیا تاکہ یہ دکھانے کی کوشش کی جائے کہ یہ فوجی افغانستان میں ہلاک ہوئے اور اس طرح امریکا بے عزتی سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

دوسری جانب افغانستان میں امریکا کے ایکی جاسوس طیارے کے گرنے کی بھی خبر موصول ہو رہی ہے جس کے بارے میں کچھ نکات قابل توجہ ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حادثے کے فورا بعد ہی یہ اعلان کر دیا گیا کہ تقریبا سو افراد ہلاک ہوئے اور کچھ میڈیا ذرائع نے بھی اس کی تائید کر دی جبکہ اس طرح کے واقعات میں فوری طور پر شناخت نہیں ہو پاتی اور ہلاکتوں کی تعداد کا اعلان بعد میں کیا جاتا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہوا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس طیارے کے گرنے کے بعد طالبان نے فوری بیان جاری کرکے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی۔ یہاں پر یہ بات بھی مشکوک نظر آتی ہے کیونکہ طالبان کو پتہ ہے کہ اس حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ یہ اس صورت میں ہی ممکن ہوگا جب اس کو یقین ہوگا کہ امریکا سے جو معاہدہ ہے اس کے تحت اس کو کسی بھی طرح کا خطرہ لاحق نہيں ہوگا یا دوسری حالت میں صرف جھوٹ کا پلندہ ہی ہے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ عین الاسد میں ایرانی میزائل حملوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں کی افغانستان منتقلی اور بعد میں فوجی طیارے کے حادثے کی آڑ میں ہلاکتوں کا اعلان کرکے امریکا اپنی بڑی بے عزتی سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ امریکی حکام یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ امریکی عوام یہ نہ سمجھ سکیں کہ عین الاسد پر حملے کا کتنا نقصان ہوا ۔  

ٹیگس