Sep ۰۷, ۲۰۱۶ ۰۸:۴۰ Asia/Tehran
  • سانحه منیٰ - دوسرا حصہ

حج کے موقع پر اکثر واقعات منی کے علاقے میں پیش آ تے ہیں۔منی مکہ کے مشرق میں پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے منی میں آگ لگنے،ہجوم میں حاجیوں کے کچلے جانے اور رمی جمرات کے وقت ہجوم اور رش کی وجہ سے ماضی میں مختلف واقعات رونما ہوئے ہیں جسکی وجہ سے وہ حجاج کرام جو حج کے مناسک آرام و سکون سے انجام دینے کے لئے سعودی عرب آتے ہیں زندہ اپنے گھروں کو لوٹ نہیں پاتے۔

حج کے موقع پر اکثر واقعات منی کے علاقے میں پیش آ تے ہیں۔منی مکہ کے مشرق میں پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے منی میں آگ لگنے،ہجوم میں حاجیوں کے کچلے جانے اور رمی جمرات کے وقت ہجوم اور رش کی وجہ سے ماضی میں مختلف واقعات رونما ہوئے ہیں جسکی وجہ سے وہ حجاج کرام جو حج کے مناسک آرام و سکون سے انجام دینے کے لئے سعودی عرب آتے ہیں زندہ اپنے گھروں کو لوٹ نہیں پاتے۔

جیسا کہ ہم نے گزشتہ پروگرام میں عرض کیا تھا کہ حج ایک ایسی باشکوہ عبادت ہے جس میں لاکھوں حاجی اپنے مناسک کو انجام دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ حجاج کی سلامتی کے لئے انتہائی منظم اور کئی زاویوں سے انتہائی باریک بینی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے لیکن ماضی کے مختلف واقعات کی روشنی میں باسانی کہا جاسکتا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت اس اہم فریضہ کو انجام دینے میں بری طرح ناکام رہی ہے ۔ماضی میں حج کے دوران مختلف حادثات پیش آئے ان سب کا  یہاں دہرانا ممکن نہیں تاہم ان میں سے چند ایک کا تذکرہ  آج کے پروگرام میں کرتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا ہے کہ مکہ سے پانچ کلومیٹر فاصلے پر واقع منی میں اکثر حادثات پیش آئے ہیں تمام  حجاج کرام دس ذی الحجہ یعنی عید قربان کو اس مقام پر اکھٹے ہوتے ہیں اور بارہ ذی الحجہ تک یہاں قیام کرتے ہیں جس دوران انہیں تین بار شیطان کو کنکریاں مارنی ہوتی ہیں اسکے بعد حاجی مکہ کی طرف واپس چلے جاتے ہیں۔ حج کے موقع پر اکثر واقعات منی کے علاقے میں پیش آ تے ہیں۔منی مکہ کے مشرق میں پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے منی میں آگ لگنے،ہجوم میں حاجیوں کے کچلے جانے اور رمی جمرات کے وقت ہجوم اور رش کی وجہ سے ماضی میں مختلف واقعات رونما ہوئے ہیں جسکی وجہ سے وہ حجاج کرام جو حج کے مناسک کو آرام و سکون سے انجام دینے کے لئے سعودی عرب آتے ہیں زندہ اپنے گھروں کو لوٹ نہیں پاتے۔

دس دسمبر 1975 کو مناسک حج کے دوران منی میں گیس کا ایک سلنڈر پھٹنے سے 200سے زیادہ حاجی جاں بحق  اور سیکڑوں  زخمی ہوگئے اور اس واقعہ میں سینکڑوں زخمی بھی ہوئے اس آگ سے بچنے والے موقع پر موجود جاحیوں نے جو آنکھوں دیکھا حال بتایا ہے اسکو سن کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس واقعہ میں سعودی حکومت کے امدادی اداروں کے کارکن موقع پر نہ پہنچ سکے اور حاجیوں نے اپنی مدد آپ  کے تحت ہلاک شدگان اور زخمیوں کو سنبھالا

یہ تکلیف دہ سانحہ بھی سعودی حکومت کو بیدار نہ کرسکا اوراس نے اسطرح کے حادثات کی روک تھام کے لئے کوئی منظم منصوبہ بندی نہیں کی۔1995  میں ایک بارپھر منی میں لگے خیموں میں آگ بھڑک اٹھی جس میں سو سے زیادہ حاجی جل کے راکھ ہوگئے حبکہ ایک بڑی تعداد شدید زخمی ہوئی۔1997 میں ایک بار پھر منی میں خیموں میں آگ لگی جس میں 343 حاجی جاں بحق ہوگئے اور 1500 سے زائد زخمی ہوئے ۔یہ سانحات ایسے عالم میں پیش آئے کہ 1975 سے لیکر 1997 تک بائیس سال کا وقت تھا کہ منی میں حادثات کی روک تھام کے لئے کوئی خاطر خواہ انتظامات کئے جاتے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب کے اعلی حکام کی نگاہ میں حجاج کی جانوں کی کوئی قیمت نہیں اور یہ حکومت وسائل اور پیسہ وہاں خرچ کرتی ہے جو لوگوں کو نظر آئے اور اس سے تشہیراتی فائڈہ اٹھایا جاسکے

جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ حادثات کی ایک بڑی وجہ حجاج کا جم غفیر ہے اور اسکی وجہ بھی زائرین کی تعداد کے ساتھ ساتھ سعودی حکومت کی بد انتظامی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ ان کے پاس اس جم غفیر کو کنٹرول کرنے کے لئے کوئی واضح منصوبہ بندی ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی اسطرح کے انتظامات کے لئے افراد کو خصوصی تربیت دی جاتی ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے آنے سے حادثات میں کمی آنی چاہیے تھی لیکن عملی طور پر نتائج اسکے برعکس ہیں۔1990 کے حج کے دوران منی تک جانے والی سرنگ حجاج کے رش کی وجہ سے بند ہوگئی اور سرنگ میں وینٹیلیشن کا نظام خراب ہونے اور ہوا کا گزر نہ ہونے کی وجہ سے 1426 حاجی دم گھٹنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئے اسی طرح 1998 میں بھیڑ کی وجہ سے 118 حاجی جابحق اور سینکڑوں زخمی ہوگئے ۔بہت سے حادثات رمی جمرات کے وقت پیش آتے ہیں۔رش اور بد انتظامی کی وجہ سے 1994 میں 270 افراد  ،2001 میں  پینتیس، دوہزار چار میں 251 اور 2006 میں 360 حاجی مارے گئے ان تمام واقعات میں متعد د حاجی شدید زخمی بھی ہوئے۔2006 میں ایک ہوٹل گرنے سے مکہ میں 76 حاجی اللہ کو پیارے ہوگئے۔

منی کے علاوہ مکہ مکرمہ میں جتنے حادثات ہوئے وہ سعودی عرب کی سیکورٹی فورسز کی نااہلی اور نالائقی کی وجہ سے ہوئے ۔1979 میں حج کے دوران آل سعود مخالف ایک گروہ نے مسجدالحرام پر قبضہ کرلیاسیکوریٹی فورسز اور حکومت مخالف گروہ کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں 153 بے گناہ شہری مارے گئے۔1987 میں ایک ایسا تکلیف دہ سانحہ پیش آیا جو سعودی عرب کی استبدادی حکومت کی پیشانی پر کلنک کے ٹیکے کے طور پر ہمیشہ موجود رہے گا۔ایران سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے حجاج نے مشرکین سے بے زاری کے اعلان کے لئے جلوس نکالا جس میں امریکہ اور اسرائیل کے خلاف نعرے لگائے گئے۔سعودی سیکوریٹی فورسز نے اس اجتماع پر وحشیانہ حملہ کرکے 402 حاجیوں کو خاک و خون میں غلطان کردیا۔اس واقعہ میں 650 سے زائد افراد شدید زخمی بھی ہوئے ۔1987 کے واقعے کے بعد گزشتہ سال 2015 میں جو افسوسناک سانحہ پیش آیا اس نے سعودی حکومت کی نااہلی اورنالائقی کو مذید نمایاں کردیا۔اس واقع میں ہزاروں حاجی سعودی حکومت کی بدانتظامی اور نااہلی کی بھینٹ چڑھ گئے ۔اس واقعہ کی تفصیلات آئندہ پروگرام میں پیش کریں گے۔

ٹیگس