سعودی عرب کی جانب سے ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے پرتاکید
Nov ۲۹, ۲۰۱۵ ۲۰:۰۶ Asia/Tehran
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر اپنے ملک کی آمادگی کا اعلان کیا ہے
سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے جہاں اسلامی جمہوریہ ایران کےساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر اپنے ملک کی آمادگی کا اعلان کیا ہے وہاں اپنےطور پر یہ بے بنیاد دعوی بھی کیا ہے کہ ایران لبنان، شام ،عراق، اور یمن میں مداخلت کامرتکب ہورہا ہے اور اسے اس مداخلت کو ختم کردینا چاہئے۔۵۳ سالہ عادل الجبیر ۲۰۱۵ میں سعود الفیصل کے بعد سعودی عرب کے وزیر خارجہ بنے ہیںانہوں نے آسٹریا کے اخبار اسٹینڈرڈ سے گفتگو کرتے ہوئے علاقائی مسائل میں سعودیعرب کی کھلی مداخلتوں اور منفی کردار کی طرف اشارہ کئے بغیر ایران کو علاقائیمشکلات کا ذمہ دار قرار دیا ہے حالانکہ صورتحال اسکے برعکس ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران اپنی باوقار سفارتکاری اور گہرے اثر ورسوخکی وجہ سے علاقے کی عوام میں مقبول اور ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے اور خطے کےعوام ایران پر اعتماد اور بھروسہ کرتے ہیں۔
عادل الجبیر ملک عبداللہ کی وفات اور آل سعود کے نئے بادشاہملک سلمان کے برسراقتدار آنے کے بعد شاہی ڈھانچے میں آنے والی وسیع تبدیلیاں کےبعد وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ عادل الجبیر وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنےسے پہلے امریکہ میں سعودی سفیر رہ چکے ہیں لیکن ان کے حالیہ بیانات سے اندازہ ہوتاہے کہ وہ سفارتی آداب اور کشیدگی کے خاتمے کے لئے اپنائی جانے والی خارجہ پالیسیسے مکمل طور پر نابلد ہیں کیونکہ وہ ایک طرف ایران سے اچھے تعلقات قائم کرنے کےخواہاں ہیں اور دوسری طرف تہران پر بے بنیاد الزامات عائد کر رہے ہیں۔
اسلامی جمہوریہ ایران نے ہمیشہ تمام ممالک بالخصوص ہمسایہممالک کے ساتھ تعلقات میں فروغ اور تعمیری پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لئے انکی طرفتعاون کا ہاتھ بڑھایا ہے اور خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لئے تمام ممالک سےپہلے سے زیادہ اتحاد و یکجہتی برقرار کرنے کا اعلان کیا ہے۔
دوسرے ممالک بالخصوص ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہترین ہمسائیگی،دو طرفہ احترام اور عدم مداخلت ،ایران کی خارجہ پالیسی کے تین اہم بنیادی اصولہیں۔ ایرانی حکام خطے کے بحرانوں کے خاتمے اور مشکلات کے حل کے لئے ہر طرح کےتعاون کے لئے آمادہ ہیں۔
ایران کا دہشتگردی کے خلاف ایک واضح موقف ہے اور وہ اسناپاک وجود کی کسی سیاسی تعبیر یا اسے کسی مفاد کے حصول کا زریعہ سمجھنے کا مخالفہے اور اس کے مقابلے پر تاکید کرتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران خطے کی عوامی تحریکوںکو ایک خاص نگاہ سے دیکھتا ہے اور اس نے ہمیشہ عوامی محاذوں اور تسلط پسندانہطاقتوں کے خلاف اہل حق کی معنوی اور اخلاقی حمایت کی ہے۔
ایران، بحرین اور یمن میں چلنے والی اسلامی بیداری کیتحریکوں کی سیاسی اور اخلاقی حمایت کرتاہے نیز ان ملکوں میں ملکی دائرہ کار میں رہ کر عوام کے غصب شدہ حقوق کی بازیابی کےلئے کی جانے والی کوششوں کا بھی حامی ہے۔
ایران کی نگاہ میں یمن اور بحرین کے حالیہ سیاسی اور حکومتیبحرانوں کا واحد منطقی راستہ سیاسی اور قومی مذاکرات کا راستہ ہے۔ علاقے میںپائیدار امن و استحکام کے لئے ایران کی پالیسیاں منطقی، واضح اور شفاف ہیں اورمختلف مواقع پر سعودی اور بحرینی حکام کی جانب سے ایران کے خلاف جو بے بنیادالزامات لگائے جاتے ہیں وہ سیاسی اور سفارتی آداب کے منافی ہیں۔
ایران تسلط پسند طاقتوں اور علاقے کے بعض فریب خوردہ ممالککی وجہ سے منظم اور منصوبہ بند دہشتگردی کا شکار ہے اور وہ بحرین اور یمن میں دہشتگردی کے نتیجےمیں ہونے والی قتل و غارت پر ہرگز خوش نہیں ہوتا اور اس نے ان قبیع واقعات کیہمیشہ مذمت کی ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کسی ملک یا سرحد کو لالچی نگاہوں سےنہیں دیکھتا اور اپنی تاریخی اصالت کی بناء پر علاقے میں امن و استحکام کے قیام کےلئے بدامنی پھیلانے والے عناصر چاہے وہ شام میں ہوں یا عراق میں انکے خلاف مقابلہجاری رکھے ہوئے ہے اور اس اقدام کو علاقائی ممالک میں مداخلت نہیں سمجھنا چاہیے۔