Mar ۱۸, ۲۰۱۶ ۱۷:۴۹ Asia/Tehran
  • نائیجیریا کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی مذمت

صبح کی نماز میں مردانہ لباس میں ملبوس دو دہشتگرد عورتوں نے مسجد میں گھس کر خود کو دھماکہ خیزمادہ سمیت اڑا دیا

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے نائیجیریا کی مسجد میں ہونے والے دھماکے کی مذمت کی ہے۔

اس دھماکے میں 25 افراد جاں بحق اور تیس سے زیادہ شدید زخمی ہوئے ہیں۔

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون  نے نائیجیریا کے شمال مشرقی شہر مایدوگوری میں ہونے والے دھماکے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے جاں بحق ہونے والے افراد کے ورثا سے اظہار تعزیت اور زخمی ہونے والے افرادکے علاج معالجے پر تاکید کی ہے۔یہ دھماکہ بورنو ریاست کے شہر مایدوگوری کے مولا محلہ میں اس وقت ہوا جب صبح کی نماز میں مردانہ لباس میں ملبوس دو دہشتگرد عورتوں  نے مسجد میں گھس کر خود کو دھماکہ خیزمادہ سے اڑا دیا۔

مارچ کے مہینے میں شمال مشرقی نائیجیریا میں ہونے والا  یہ دوسرا خود کش دھماکہ ہے ۔

بدھ کے دن ہونے والے اس دھماکے میں 25 نمازی جاں بحق اور 30شدید زخمی ہوئے ہیں۔

نائیجیریا کے صدر نے بھی بوکوحرام کے ہاتھوں مسجد میں ہونے والے اس دھماکے  پر اپنے تعزیتی پیغام میں جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ سے تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر تاکید کی ہے کہ مسجد میں ہونے والے ان مذموم حملوں سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ان حملوں کے ذمہ دار افراد جو اپنے آپ کو اسلام اور دین کو محافظ گردانتے ہیں وہ دین کے محافظ نہیں بلکہ مجرم ہیں اور اسطرح کے افراد کی مہذب دنیا میں کوئی جگہ نہیں۔

نائیجیریا کے صدر بوہاری نے اس بات پر زور دیا ہے کہ نائیجیریا کی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکوریٹی فورسز نے اس بات کا پختہ ارادہ  کیا ہے کہ وہ بوکوحرام کو ہمیشہ کے لئے اور مکمل طور پر ختم کرکے دم لیں گے۔

نائیجیریا کے صدر کا یہ بیان ایسے عالم میں سامنے آیا ہے کہ انہوں نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ بوکوحرام سے مقابلہ ان کے ایجنڈے کا مرکزی نقطہ ہے ۔ نائیجیریا کے صدر نے 2016 کے آغاز میں دعوی کیا تھا کہ بوکوحرام گروہ  شکست سے دوچار ہوچکا ہے تاہم اس بیان کے سامنے آنے کے باوجود اس گروہ کے انتہا پسند ابھی تک اپنے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ نائیجیریا کی فوج نے بوکوحرام کے خلاف اقدامات ضرور انجام دیئے ہیں، لیکن انہیں اس حوالے سے کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سات برسوں میں شمالی نائیجیریا کے مسلمان نشین علاقوں میں کم سے کم سترہ ہزار افراد بوکوحرام کی دھشت گردی کا نشانہ بن کر ہلاک ہوئے ہیں۔
بوکوحرام کے دھشتگرد عام طور پر اسکولوں، بازاروں اور شہر کے گنجان آباد علاقوں کو اپنی دھشت گردی کا نشانہ بناتے ہیں، تاہم گذشتہ کچھ عرصے سے انہوں نے مساجد میں دھشت گردانہ کارروائیوں تیز کردی ہیں۔
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نائیجیریا میں ایک مقتدر حکومت اور مضبوط فوج کی عدم موجودگی، دھشت گردانہ حملوں کے جاری رہنے کی بنیادی وجہ ہے۔
اکثر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نائیجیریا کی فوج بوکوحرام سے مقابلے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اس کے اقدامات ناکافی ہیں، جبکہ بعض آگاہ ذرائع تو یہاں تک کہتے ہیں کہ بوکوحرام سے مقابلے کے حوالے سے فوج نہ صرف عملی کارروائی نہیں کرتی بلکہ رکاوٹیں بھی ایجاد کرتی ہے۔
بعض تجزیہ کاروں کی یہ رائے ہے کہ بعض بیرونی ممالک بوکوحرام کی پس پردہ حمایت کرتے ہیں اور نائیجیریا کی فوج کو اس دھشت گرد گروہ کے خلاف عملی کارروائیاں انجام دینے سے باز رکھتے ہیں۔
نائیجیریا کی فوج نے چند ماہ پہلے اس ملک کے مسلمان عزاداروں کے ایک کاروان پر حملہ کر کے ہزاروں افراد کو خاک و خون میں غلطاں کردیا تھا اور نائیجیریا کے شیعہ مسلمانوں کے رہنما شیخ  ابراہیم الزکزکی کو بھی گرفتار کرلیا ۔
گذشتہ چند ہفتوں میں دھشت گرد گروہ بوکوحرام نے نہ صرف ملک کے اندر دھشت گردانہ کارروائیاں انجام دی ہیں بلکہ پہلی بار ہمسایہ ملک چاڈ میں بھی دھشت گردانہ حملے انجام دیئے ہیں، جن میں شدت بھی نظر آرہی ہے۔
اب جبکہ نائیجیریا میں بوکوحرام سمیت دیگر دھشت گر گروہوں کی جانب سے ملک میں دھشت گردانہ کارروائیوں میں اضافہ ہورہا ہے اس صورت حال میں اس ملک کے حکام کو نہ صرف دھشت گردوں کے خلاف اپنے عزم کو جزم کرنا ہوگا، بلکہ بیرونی مداخلت بالخصوص سامراجی عناصر کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات انجام دینے ہوں گے۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب جیسے ممالک افریقی ملکوں میں وہابیت کی ترویج کے درپے ہیں دوسری طرف اس براعظم میں صہیونی حکومت کی منفی سرگرمیوں سے بھی غافل نہیں رہنا چاہیے۔


ٹیگس