سعودی عرب کے جھوٹے دعوے
سعودی عرب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علاقے میں انتہاپسندوں اور دہشتگردوں کی حمایت کرتا ہے اور اس حوالے سے اسرائیل ،قطر،اور ترکی کے ساتھ تعاون کرتا ہے ۔
اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندے نے دعوی کیا ہے کہ سعودی عرب علاقے اور دنیا میں امن و امان کی برقراری اور دہشتگردی سے مقابلہ کے لئے آمادہ ہے ۔ اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے نمائندے عبداللہ المعلمی نے اقوام متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں ؛دہشتگردی کا نظریہ اور افکار'؛ کے موضوع پر ہونے والے اجلاس میں عراق اور شام میں دہشتگردی کے فروغ اور انکی مالی حمایت میں سعودی کردار کو فراموش کرتے ہوئےدعوی کیا ہے کہ ایران مغربی ایشیا میں دہشتگردی کا منبع ہے ۔
المعلمی کے متضاد اور حقیقت کے برعکس بیانات ایسے عالم میں سامنے آئے ہیں کہ سعودی عرب دنیا کے مختلف علاقوں میں تکفیریت،سلفیت اور دہشت گردی پھیلانے میں بنیادی کردار ادا کررہا ہے اور اس ملک کو بلا شبہ دہشتگردی کو پروان چڑھانے اور اسکو برآمد کرنے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔
داعش،القاعدہ اور طالبان سمیت مختلف دہشتگرد گروہوں میں سعودی عرب کی موجودگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور ان دہشتگردوں کی ہرکارروائی میں سعودی عرب کا ہاتھ واضح اور نمایاں ہے۔ سعودی عرب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت علاقے میں انتہاپسندوں اور دہشتگردوں کی حمایت کرتا ہے اور اس حوالے سے اسرائیل ،قطر،اور ترکی کے ساتھ تعاون کرتا ہے ۔ شام ،عراق اور یمن کے بعض علاقوں میں موجود دہشتگردوں کو سعودی عرب کی بھر پور حمایت حاصل ہے اور انکی حالیہ سرگرمیوں کے پیچھے سعودیہ کا ہاتھ ہے ۔ سعودی عرب انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ علاقے میں دہشتگردی کو پروان چڑھانے میں سب سے آگے ہے اور اس انتہا پسندی اور تشدد پسندی کی اصل وجہ تکفریت اور سلفیت کے گمراہ کن نظریات ہیں۔
سعودی عرب ایسے حالات میں ایران پر دہشتگردی کی حمایت کا الزام لگا رہا ہے کہ ایران سب سے زیادہ دہشتگردی کا شکار رہا ہے اور اس نے اس حوالے سے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اور اسے بہت زیادہ نقصانات برداشت کرنے پڑے ہیں۔ان تمام مشکلات کے باوجود ایران نے دہشتگردی کا حقیقی مقابلہ کرنے کے لئے علاقے اور دنیا کے مختلف ممالک بالخصوص اپنے ہمسایہ ملکوں سے ہمیشہ تعاون کیا ہے اور تعمیری پالیسیاں اپنائی ہیں۔ایران امن و استحکام کو مختلف ممالک کے باہمی تعاون کا مرہون منت سمجھتا ہے ۔ایران دہشتگردی کے حقیقی مقابلے کے دائرہ کار میں عراق اور شام سے تعمیری تعاون کررہا ہے ۔
ایران کی نگاہ میں دہشتگردی کو اچھی اور بری دہشتگردی میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا اور اس برائی کا جڑوں سے خاتمہ ہونا چاہیۓ۔اقوام متحدہ میں ایران کے نمائندہ غلام حسین دہقانی کے بقول عالمی برادری کو سب سے پہلے دہشتگردی کے افکار و نظریات کی بنیاد کا مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ ان گمراہ کن نظریات کی وجہ سے تشدد اور نفرت نے نہ صرف عالم اسلام بلکہ عالم اسلام سے باہر کی نوجوان نسل کے قلب و زہن کو اپنے قابو میں کررکھا ہے اور ان باطل نظریات کی وجہ سے نوجوان نسل کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
آج متشدد انتہا پسندی مغربی ایشیا سمیت دنیا کے بہت سے ملکوں کی سیکوریٹی کے لئے سب سے بڑا چیلنج ہے اور اس عمل میں سعودی عرب کا کردار بلاواسطہ اور عملی ہے۔داعش،النصرہ فرنٹ،القاعدہ اور طالبان وغیرہ سب کے سب تکفیری وہابیت کے افکار و نظریات کی پیداوار ہیں ۔اور یہ سب سعودی مدارس کی تعلیمات کے مطابق اپنے پروگرام کو آگئے بڑھا رہے ہیں
سعودی عرب کی طرف سے دہشتگرد گروہوں کی حمایت کا ایک ہدف فرقہ واریت کو ہوا دینا بھی ہے اور وہ اس سازش کے زریعے مختلف ممالک منجملہ عراق میں مختلف فرقوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں لانے میں کوشاں ہے ،سعودی عرب کی یہ سازش عالم اسلام کے خلاف ایک کھلم کھلا ظلم ہے۔ سعودی عرب ایک طرف دہشتگردی سے مقابلے کی بات کرتا ہے اور دوسری طرف دہشتگرد گروہوں کی حمایت اور غاصب صیہونی حکومت سے تعاون بھی کرتا ہے اور یہ دونوں باتیں آپس میں میل نہیں کھاتیں کیوں کہ دہشتگردی اور صیہونی حکومت عین تشدد ہیں۔