Nov ۰۴, ۲۰۱۵ ۱۰:۳۵ Asia/Tehran
  • امریکی جاسوسوں کی گرفتاری
    امریکی جاسوسوں کی گرفتاری

ایرانی طالبعلموں اور عوام کا ایک بڑا طبقہ اس بات کو اچھی طرح سے جان گيا تھا کہ اگر تہران میں واقع امریکی سفارتخانہ یونہي کام کرتا رہا تو آئندہ برسوں میں اس کا وجود ملک کے لئے انتہائي خطرناک ثابت ہوگا۔ چنانچہ انہوں نے آج سے چھتیس برس قبل چار نومبر 1979 کو پوری ہوشیاری اور آگاہی کے ساتھ امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں موجود کچھ امریکیوں کو یرغمال بنالیا۔

1۔ مغربی تسلط کے مقابلے میں اسلامی انقلاب اور ایرانی عوام کی استقامت 

جولوگ 1979 میں ایران میں رہتے تھے وہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ ان کا اصل دشمن شاہ اور پہلوی حکومت نہيں ہے۔ اگر چہ شاہ، ایرانی عوام کا دشمن نمبر ایک شمار ہوتا تھا لیکن سب لوگ اس بات سے بھی اچھی طرح واقف تھے کہ شاہ بیرونی ایجنٹ ہے اور خاص طور پر امریکہ کا نوکر بنا ہوا ہے۔ اسی بنا پر اس زمانے میں شاہ کے خلاف جاری تحریک امریکہ کے تسلط کے خلاف جدوجہد شمار ہوتی تھی۔ مثلا اس زمانے میں ایک نعرہ جو بکثرت عوامی مظاہروں کے دوران لگایا جاتا تھا، " شاہ کے بعد امریکہ کی باری ہے" کا نعرہ تھا جس سے امریکہ کے خلاف ایرانی عوام کے تاثرات کا پتہ چلتا ہے۔ اس وقت درحقیقت اسلامی انقلاب نے مغربی تسلط کے مقابلے میں آکر امریکا کو میدان کارزار میں اترنے پر مجبور کردیا، لہذا اسلامی انقلاب کی کامیابی کو ایک ایسے انقلاب کی کامیابی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو کسی بھی طاقت سے وابستہ نہیں تھا اور اس کے ساتھ ہی ایک ایسا انقلاب تھا جو اسلامی افکار و نظریات کی بنیاد پر وجود میں آيا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس زمانے کی دونوں بڑي طاقتیں یعنی امریکہ اور سابق سویت یونین اسلامی انقلاب کی مخالفت پر اتر آئیں۔ 

2۔ امریکی جاسوسی اڈے پر قبضے سے متعلق اقدام کی امام خمینی رحمۃ اللہ کی جانب سے حمایت 

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے ابتدائي ایام سے ہی عملی طور پر امریکا کا مقابلہ کرنے کا نظریہ ایرانی طالبعلموں کے درمیان بحث و مباحثہ کا موضوع بنا ہوا تھا۔ چنانچہ بعض یونیورسٹی طلبا و طالبات نے امریکی سفارتخانے پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کرہی ڈالا اور 4 نومبر 1979 کو تہران میں واقع امریکی سفارتخانے پر جو در حقیقت جاسوسی کا ایک بڑا اڈہ تھا، قبضہ کرلیا گیا۔ امریکی سفارتخانے پر قبضے کے دن سب لوگ شش وپنج میں تھے کہ اب کیا ہوگا لیکن امام خمینی رحمۃ اللہ نے امریکی سفارتخانے پر قبضے کی حمایت کرکے ان کی تشویش اور پریشانی کو دور کردیا۔ 

امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے امریکہ کے جاسوسی اڈے پر قبضے کو دوسرا انقلاب قراردیا۔ ایرانی طلبا کے ہاتھوں امریکی جاسوسی اڈے پر قبضہ کوئي جذباتی فیصلہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک سوچا سمجھا اقدام تھا۔ کیوںکہ ماضي کے انقلابات کا تجربہ ان کے پیش نظر تھا کہ جو بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان کے بعد کامیابی سے ہمکنار ہوئے اور ان انقلابات کے ذریعے وابستہ حکومتوں اور پٹھو حکمرانوں کو سرنگوں کیا گيا لیکن افسوس کہ انہیں اندر سے ضرب پڑی اور وہ بتدریج اپنے راستے سے ہٹ گئے اور سرانجام بیرونی طاقتوں کے آگے جھک گئے اور دوبارہ ان سے وابستہ ہوگئے۔

محترم ویورز آپ بتائیے کہ اگر امریکی سفارتخانے پر قبضے کا واقعہ آپ کے ملک میں پیش آیا ہوتا تو کیا آپ اس کی--- 

حمایت کرتے؟

مخالفت کرتے؟

لاتعلق رہتے؟

اس سروے میں حصہ لینےکیلئے یہاں کلک کریں

ٹیگس