Nov ۱۵, ۲۰۱۵ ۱۴:۲۵ Asia/Tehran
  • بنت علیؑ محافظ امامت
    بنت علیؑ محافظ امامت

اے یزید یاد رکھ کہ تو نے جو ظلم آل محمد پر ڈھائے ہیں اس پر رسول خدا عدالت الہی میں تیرے خلاف شکایت کریں گے اور جبرائیل امین آل رسول کی گواہی دیں گے پھر خدا اپنے عدل و انصاف کے ذریعے تجھے سخت عذاب میں مبتلا کرے گا اور یہی بات تیرے برے انجام کے لئے کافی ہے-

 راولپندی - راضیہ سید

نبی کا دین چلا ہے جناب زینب سے
جناب زہرا سے بے شک چلی ہے نسل نبی

حیات ارض و سما ہے جناب زینب سے
نہ ہو شفاعت بنت علی تو کچھ بھی نہیں

وقار فرق و ردا ہے جناب زینب سے
سروں کو چادریں بخشی ہیں بے ردا ہو کر

چراغ دیں کی ضیا ہے جناب زینب سے
زمانہ لاکھ بجھائے بجھا نہیں سکتا

بہت قریب خدا ہے جناب زینب سے
اثر دعا کو ملا ہے جناب زینب سے

بی بی زینب عالمہ غیر معلمہ تھیں، جب مولا علی مشکل کشا کوفہ میں تشریف لائے تو آپ بھی ان کے ساتھ تشریف لائی تھیں جہاں آپ نے ان کی اجازت اور کوفی و شامی خواتین کے پرزور اصرار پر قرآن و حدیت کی مجالس کا آغاز کیا۔

آج کل حقوق نسواں کا بہت پرچار کیا جاتا ہے، خواتین کے لئے مردوں کی برابری اور مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی تلقین کی جاتی ہے، لیکن بی بی زنیب نے امام حسین، مولا علی، امام زین العباد کی نصرت کر کے ثابت کیا کہ اصل میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا مطلب کیا ہے اور کس طرح پردہ میں رہ کر دین کی خدمت کی جا سکتی ہے۔ اللہ تعالی ہمیں اسوہ زنیب کی پیروی کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین-

’’ہم نے اچھائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا۔ خدا کی طرف سے یہ فیصلہ ہو چکا تھا کہ انھیں مقتول دیکھے اور اب وہ لوگ خدا کی بارگاہ میں آرام کر رہے ہیں۔ عنقریب ہی اللہ تعالی تمھیں اور انھیں قیامت کے دن محشور کرے گا اور تم لوگ اس دن کے بارے میں فکر کرو کہ اس دن حقیقت میں کون کامیاب ہو گا؟ ‘‘

بی بی زینب محافظ امامت بھی ہیں کہ ایک تو انھوں نے امام حسین کی نصرت کی ان کی شہادت کے بعد ذکر حسین کو عام کیا وہ بانی مجلس حسین ہیں۔ دوسرا انھوں نے میدان کربلا میں بیمار امام زین العابدین کی بھی نصرت کی، ابن زیاد اور یزید کے دربار میں جب امام زین العابدین کو شہید کرنے کی کوشش کی گئی، بی بی زنیب ان کی ڈھال بن گئیں، جب خیام حسین جل گئے تب بھی بی بی نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے امام زین العابدین کو پشت پر سوار کرا کے امامت کا تحفظ کیا، انھوں نے اس ہاشمی غیرت مند جوان کا ہر لمحہ حوصلہ بڑھایا۔ بی بی زینب صبر و استقامت کا بھی پیکر تھیں انہوں نے  عون و محمد کو بھی اپنے بھائی پر قربان کردیا ، انھیں اپنے بھائی اور دیگر شہدائے کربلا پر رونے نہیں دیا گیا لیکن وہ اسلام کے بچانے کے لئے یہ دکھ بھی ضبط سے برداشت کر گئیں۔ انھوں نے ابن زیادہ کے دربارمیں خطبہ دیا-

بی بی کی شجاعت اور سخاوت کا ذکر ہو تو ہمیں ان کے خانوادہ پر بھی ایک نظر ڈالنا ہو گی۔ ان کی نانی جناب خدیجہ الکبری جو ملیکتہ العرب کے لقب سے مشہور تھیں نے بھی مشکل حالات میں ہمارے نبی آخر الزماں کا ساتھ دیا اور اپنی دولت سے اسلام کی آبیاری کی، اگر آپ جناب کی والدہ گرامی حضرت بی بی فاطمہ سیدۃ النسا العالمین کا ذکر ہو تو بھی آُپ نے  اپنے وراثتی حق باغ فدک کے لئے جدوجہد کی بی بی سیدہ نے حق کے لئے آواز بلند کرنا سکھایا تو جناب بی بی زینب کا معرکہ کربلا میں کردار اصل میں ان دونوں ہستیوں کی تربیت کا نتیجہ بھی رہا ہے اور ان کی صفات کا تسلسل بھی۔

تاریخ اسلام اس عظیم خاتون کی فصاحت و بلاغت کی مقروض ہے، ان خطبوں کی مقروض ہے جو انھوں نے امام  حسین علیہ اسلام کی شہادت کے بعد اسیری کے عالم میں دربار یزید میں دئیے۔ بی بی زنیب کے کمال و فن، فصاحت و بلاغت، جرات و اعلی کردار کو احاطہ تحریر میں لانا میری بساط سے باہر ہے۔ وہ نہ صرف کربلا کی شیر دل خاتون ہیں بلکہ میدان کربلا میں یتیم ہونے والے بچوں کا سہارا بھی، بیمار امام حضرت سجاد علیہ اسلام کی ڈھارس بھی ہیں


 ثانی زہرا ، وارث تطہیر، عالمہ غیر معلمہ سیدہ بی بی زنیب سلام اللہ علیہ جن کی ہیبت سے آج بھی ہر دور کا یزید کانپتا ہے کیونکہ یہ کوئی عام خاتون نہیں بلکہ فاتح خیبر کی فاتح کربلا شیر دل بیٹی، امام حسین علیہ اسلام کی ناصر شریکتہ الحسین ہمشیرہ اور محافظ امامت ہیں، کیا ہوا جو پیکر اور مجسم ذات بی بی زنیب کی ہے لہجہ تو علی مرتضی کا ہے، تربیت تو فاطمہ کی ہے اور پرورش بی بی فضہ کی گود کی ہے۔ اگر یہ مقدسہ بی بی میدان کربلا میں نہ ہوتیں تو مقصد حسین فوت ہو جاتا۔۔ مشن حسینی کی تکمیل نہ ہوتی اور نہ ہی اسلام کو بقا ملتی-

ٹیگس