Apr ۲۳, ۲۰۱۷ ۱۷:۲۴ Asia/Tehran
  • امریکی پالسییاں، ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کا بہانہ

مشترکہ جامع ایکش پلان پر عمل نہ کرنے کے تعلق سے مغرب کی بہانہ تراشیوں کو، تہران ہرگز قبول نہیں کرے گا-

یہ بات اسلامی جمہوریہ ایران کے نائب وزیر خارجہ برائے قانونی اور بین الاقوامی امورسید عباس عراقچی نے ہفتے کے روز ایران میں جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے دہشتگرد منافقین کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات پر اپنے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہی - انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت کو ایرانوفوبیا کے حوالے سے دہشتگردوں اور ان کے حامیوں کے جھوٹے اور گمراہ کن پروپگنڈوں کے بجائے حقایق کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ  پچیس اپریل کو ویانا میں ایران اور گروپ پانچ جمع ایک کے مشترکہ کمیشن کے اجلاس میں ، ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکی حکومت کی عہدشکنی ، لیت ولعل سے کام لینے اور محاذ آرائی کے تمام موارد کو بیان کریں گے اور ان مسائل کا جائزہ لیں گے۔ 

وائٹ ہاؤس کے حکام نے گذشتہ چند برسوں کے دوران ایران کے خلاف نئے اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ ایران پرعلاقے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے الزام سے لے کرٹرمپ کا بے بنیاد دعوی، کہ جس میں ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران نے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے، اس کے علاوہ ایران کی میزائل کی دفاعی صلاحیت کو مغرب کے سیاسی اور خبری حلقوں کی جانب سے خطرہ ظاہر کرنے کی کوشش ، یہ سب ایرانو فوبیا کا حصہ ہیں- دہشت گرد گروہ منافقین نے بھی حالیہ دنوں میں واشنگٹن میں ایٹمی معاہدے میں ایران کی کارکردگی کے جائزے کے اجلاس میں یہ دعوی کیا ہے کہ ایران اس وقت ایٹم بم بنا رہا ہے۔

 ایران کے نائب وزیر خارجہ عباس عراقچی نے ان بے بنیاد الزامات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ایران مخالف بے بنیاد اور جھوٹے الزامات  اور پروپگنڈے، دہشتگرد منافقین کی ناکامی کی نشانی ہیں کیونکہ اس سے پہلے عالمی جوہری توانائی ادارے نے ان بیانات کے جھوٹ پر مبنی ہونے کی وجہ سے انھیں کوئی اہمیت نہیں دی تھی- عراقچی نے کہا کہ جب عالمی جوہری توانائی ادارے کے منیجنگ ڈایریکٹر، پارچین سائٹ اور ایران کے جوہری پروگرام کی غیر فوجی ماہیت کی تصدیق کرتے ہیں تو منافقین ایرانوفوبیا کے تحت ایسے بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔ ایران کےنائب وزیرخارجہ نے کہا کہ دہشتگرد منافقین کی ایرانی قوم میں کوئی جگہ نہیں ہے اور ایرانی قوم اور عوام نے انھیں مسترد کردیا ہے۔

بعض مبصرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ ایٹمی معاہدے کے تعلق سے اپنے وعدوں کو نظر انداز کرنے کے سلسلے میں اس کوشش میں ہیں کہ ماضی کے اپنے تند وسخت اظہار خیال کے برخلاف ، احتیاط کے ساتھ قدم  آگے بڑھائین اور اس احتیاط کی وجہ، کانگریس کے نمائندوں کی جانب سے وائٹ ہاؤس کو ایٹمی معاہدے کی براہ راست خلاف ورزی سے منع کیا جانا ہے- فارن پالیسی ویب سائٹ نے حال ہی میں ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ ایران سے مقابلہ کرو لیکن ایٹمی سمجھوتہ خطرے میں نہ پڑے- ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں امریکی پالیسی، چند اسٹریٹیجی پر منظم کی گئی ہے- اس سلسلے میں تین سناریو پیش کئے گئے ہیں- پہلا سناریو ایٹمی معاہدے کو ختم کرنا ہے کہ جو ایک دشوار کا م ہے ، یہ سناریو کہ جو امریکہ میں بعض گروہوں نے تیار کیا ہے ، ٹرمپ کو ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی کرنے سے منع کرتا ہے اور ان سے کہا ہے کہ جب  بارک اوباما کی جانب سے دستخط ہونے والے موارد کو ایک سو بیس دن گذرجائیں، اس وقت مشترکہ جامع ایکشن پلان پر عملدرآمد کو عملی طور پر روک دیں۔

امریکہ کا دوسرا سناریو ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات شروع کرنے کے لئے دباؤ ڈالنا ہے تاہم ایران نے دوباہ مذاکرات کو مسترکردیا ہے- اس لئے کہ ایران نے اپنے وعدوں پر عمل کیا ہے اور اس کے لئے دوبارہ مذاکرات کی ، وہ بھی امریکہ کے ساتھ، کوئی وجہ نہیں ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے بھی کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں ہوں گے - ایٹمی معاہدہ ایران، چین ، فرانس، برطانیہ، امریکہ اور روس کی کوششوں کا ماحصل ہے اور یکطرفہ سمجھوتہ نہیں ہے- لیکن تیسرا سناریو سخت موقف کے ساتھ ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کرنا ہے کہ جس پر پہلے کے دوسناریو کے مقابلے میں زیادہ تاکید کی جا رہی ہے- اس لئے شاید سب سے زیادہ امکان والا آپشن یہ ہو کہ ڈونلڈ ٹرمپ ایٹمی معاہدے کو پھاڑنے یا ایٹمی معاہدے کی شقوں کے بارے میں مذاکرات کے دوبارہ انعقاد پر اصرار کرنے کے بجائے ، مشترکہ جامع ایکشن پلان پر مکمل عملدرآمد کے مسئلے میں رکاوٹ کھڑی کریں۔ وائٹ ہاؤس کے حکام کے خیالات بھی اسی مسئلے کی تائید کرتے ہیں۔ اس طرح سے امریکہ بظاہر ایٹمی معاہدے سے جو ایک بین الاقوامی سمجھوتہ ہے دستبردار نہیں ہوگا، تاہم آسانی سے اس پرعملدرآمد کے لئے تیار نہیں ہوگا۔

اس وقت ایٹمی معاہدہ انجام پائے ہوئے ایک سال سے زیادہ کا عرصہ گذرچکا ہے- اس سمجھوتے کے بہت سے نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں لیکن ایٹمی معاہدے کے کسی بھی فریق نے ایران کی طرح اپنے وعدے پر عمل نہیں کیا ہے- جیسا کہ ایران کے نائب وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ تہران ایٹمی معاہدے کے سلسلے میں اپنے وعدوں پر عمل نہ کرنے کے تعلق سے کسی بھی بہانہ تراشی کو قبول نہیں کرے گا اور ایٹمی معاہدے میں اس بات کو مد نظر رکھا گیا ہے کہ جس وقت بھی اسلامی جمہوریہ ایران اس بات کی تشخیص دے گا کہ فریق مقابل اپنے وعدوں پر عمل نہیں کر رہا ہے ، آزادانہ فیصلہ کرتے ہوئے اس معاہدے سے نکل جائےگا۔         

ٹیگس