May ۲۴, ۲۰۱۷ ۱۷:۴۳ Asia/Tehran
  • امریکہ، ایران کو الگ تھلگ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا

ایران کی جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ نے ایران کو گوشہ نشیں کرنے کے امریکی صدر کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ واشنگٹن میں تہران کو گوشہ نشیں کرنے کی توانائی نہیں پائی جاتی-

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب میں بے بنیاد دعووں کی تکرار کرتے ہوئے ، ایران پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام عائد کیا اور ایران کو گوشہ نشیں کرنے کی بات کہی- ایران کی جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے فرانسیسی اخبار لوفیگارو کے کے ساتھ انٹرویو میں ، جو منگل کو شائع ہوا، کہا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو یہ جان لینا چاہئے کہ ایران پابندیوں کے دور میں بھی گوشہ نشیں نہیں ہوا اور اس کی ترقی و پیشرفت کا سسلسلہ بدستور جاری ہے- ایران کی جوہری توانائی کے ادارے کے سربراہ علی اکبر صالحی نے ٹرمپ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی ممکنہ منسوخی کے بیان کے بارے میں کہا کہ ایٹمی معاہدہ امریکیوں کی جانب سے منسوخ کئے جانے کی  صورت میں ایران اپنی پرامن ایٹمی سرگرمیوں کی جانب پہلی والی حالت پر واپس آجائے گا اور اس میں مزید توسیع کرے گا- 

مشترکہ جامع ایکشن پلان یا ایٹمی معاہدے پر دستخط کے بعد سے امریکی رویہ دھمکی آمیز رہا ہے- امریکہ نے ایٹمی معاہدے کے بعد ایران کے میزائل پروگرام کو بہانہ بنایا اور اندرون و بیرون ملک ایران کے بعض افراد اورکمپنیوں پر پابندی لگا دی تاکہ ایٹمی معاہدے کو مشکلات سے دوچار کردے لیکن اس بارے میں کہ ٹرمپ کس حد تک اس راہ میں قدم اٹھا سکتے ہیں، شکوک و شبھات پائے جاتے ہیں - ٹرمپ نے انیس مئی کو ایران میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے انعقاد سے چند روز قبل ایٹمی معاہدے کے دائرے میں ایران کے خلاف عائد بعض پابندیوں کو ختم کردیا تاکہ یہ ظاہر کرسکیں کہ وہ ایٹمی معاہدے کے پابند ہیں لیکن ساتھ ہی ایران کے میزائل کو خطرہ ظاہر کرنے کے بہانے، نئی پابندیاں بھی عائد کردیں- 

ایسا خیال کیا جا رہا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے حالیہ دورہ سعودی عرب میں ریاض میں منفی پروپگنڈوں سے متاثر ہوکر جو بیانات دیئے ہیں وہ ایٹمی سمجھوتے کے بارے میں دوبارہ مذاکرات کے لئے زمین ہموار کرنا ہے- جبکہ اس کام کے لئے کوئی بھی منطقی دلیل موجود نہیں ہے- امریکی حکومت بھی اس مسئلے سے واقف ہے اسی لئے ٹرمپ ایٹمی معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے اس طرح کے ہراساں کرنے والے اقدامات انجام دے رہے ہیں لیکن بہرحال اس امر کے پیش نظر کہ ایٹمی معاہدہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے اور سلامتی کونسل کی قرارداد کے دائرے میں انجام پایا ہے اس لئے امریکہ یکطرفہ طورپر اس حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا ہے اور اپنے یکطرفہ فیصلے ایران سمیت پانچ جمع ایک گروپ پر مسلط نہیں کرسکتا - اس لئے امریکہ کے لئے جو آپشن باقی بچتا ہے وہ  صرف دھمکی آمیز بیانات دینا ہے-

یہ دھمکی آمیز بیانات ایسے میں سامنے آرہے ہیں کہ امریکہ کی نیشنل انٹیلیجنس کے سربراہ ڈین کوٹس نے منگل 23 مئی کو مسلح افواج کی کمیٹی میں اعتراف کیا ہے کہ ایران، 2015 میں ہونے والے ایٹمی معاہدے کا پابند ہے - یہ ایسی حالت میں ہے کہ عالمی مبصرین کی نظر میں اس سمجھوتے سے چشم پوشی ، سمجھوتے میں شریک ملکوں یعنی یورپی یونین ، چین اور روس کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں پیچیدگی پیدا ہونے کا سبب بنے گی اور امریکہ پیچھے کی جانب واپسی اور چند جانبہ پابندیاں عائد کرنے جیسے اقدامات کی تکرارنہیں کرے گا- یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ فیڈریکا موگرینی نے اس سے قبل کہا تھا کہ اس معاہدے کے خلاف یکطرفہ اقدام کرنے کا امکان نہیں پایا جاتا اس لئے کہ ایٹمی معاہدہ اس پر دستخط کرنے والے ملکوں کے مفادات کا ماحصل ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل بھی نے اس سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں-

ٹیگس