Oct ۲۲, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۱ Asia/Tehran
  •  ایٹمی معاہدے کے خلاف امریکی صدر کا موقف، ایک بین الاقوامی دستاویزکی نابودی کے مترادف

اسلامی جمہوریہ ایران نے کہا ہے کہ ایٹمی معاہدے کے خلاف امریکی صدر کے تمام بیانات اور مواقف، ایک بین الاقوامی معاہدے کو ختم اور نابود کرنے کے مقصد سے ہیں۔

ایران کے نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے روس کے دارالحکومت ماسکو میں این پی ٹی کی بین الاقوامی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایٹمی معاہدے کی شقوں چھبیس، اٹھائیس اور انتیس کے مطابق امریکہ اس بات کا پابند ہے کہ اس سمجھوتے پر نیک نیتی کے ساتھ اور تعمیری ماحول میں عملدرآمد کرے اور ہر اس اقدام اور عمل سے باز رہے جو پابندیاں اٹھائے جانے کی راہ میں ایران کے مفادات کے لئے نقصان دہ ثابت ہوں- لیکن ابھی تک واشنگٹن نے ان شقوں پر عمل نہیں کیا ہے اور ایٹمی معاہدے سے متعلق اپنے کسی بھی وعدے پر نہ صرف عمل نہیں کیا ہے بلکہ متعدد مواقع پر اس معاہدے کی روح اور متن کی خلاف ورزی کی ہے- 

امریکہ کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی خلاف ورزی ایک ایسا اقدام ہے کہ جو عالمی برادری کو مشکلات سے دوچار کردے گا اور ان مشکلات میں سے ایک عالمی سطح پر ہونے والے معاہدوں کی نابودی ہے کہ جس سے دنیا کے سارے ممالک نقصان اٹھائیں گے- اسلامی جمہوریہ ایران کے وزیرخارجہ محمد جواد ظریف نے امریکہ کی مخاصمانہ کوششوں کے ردعمل میں کہ جن کے تحت وہ ایٹمی معاہدے میں تبدیلی یا امکانی صورت میں اس کو ختم کرنے کی بات کررہا ہے، کہا ہے ایٹمی معاہدے یا مشترکہ جامع ایکشن پلان پر اب دوبارہ مذاکرات نہیں ہوسکتے- وزیرخارجہ جواد ظریف نے اپنے ٹوئیٹر پیج پر لکھا کہ امریکی حکام کے نقطہ نگاہ سے بہتر سمجھوتہ، محض ایک وہم ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ حقائق کو تحریف کرنے سے باز آجائے اور جس طرح سے ایران ایٹمی معاہدے کی پابندی کررہا ہے امریکا بھی اس کی پابندی کرے-

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایٹمی معاہدے کے بعد مثبت ماحول کو خراب کرنے کے مقصد سے اپنے پہلے علاقائی دورے کے آغاز میں ، سعودی عرب گئے تھے اور انہوں نے ریاض کانفرنس میں شرکت کرکے اس بات کی کوشش کی تھی کہ ایران کو نئے علاقائی تنازعات میں دھکیل دے- امریکی وزیر خارجہ بھی ہفتے کے روز سعودی عرب پہنچے تاکہ اس سلسلے میں نئے اقدامات انجام دیں- امریکی اقدامات سے، علاقے اور دنیا کی قوموں کو دہشت گردی ، جنگ ، تقسیم اور بدامنی میں شدت کے سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوا ہے- آج ایران کے پڑوسی ممالک دہشت گردی اور بدامنی کا شکار ہیں - لیکن امریکہ ایران کے خلاف اتحاد قائم کرنے کی کوشش میں ہے اور اس طرح سے حقائق کو تبدیل کرنا چاہتا ہے- 

علاقے میں سفارتی سرگرمیاں بھی عرب ملکوں کی ہم آہنگی سے، امریکی اقدامات میں شدت لانے اورایران کے خلاف نام نہاد عرب اتحاد تشکیل دینے کے مقصد سے ہے- بعض خبری اور سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات  ،علاقے کے بعض عرب ملکوں کی رول پلیئنگ سےاستفادہ کرتے ہوئے ایران اور امریکہ کو مد مقابل لاکھڑا کرنے کی نئی کوششوں کے مترادف ہیں- کچھ دنوں قبل لندن سے شائع ہونے والے اخبار رای الیوم نے ایک مضمون میں علاقے کے بعض عرب ملکوں کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے، ان پالیسیوں کو خلیج فارس کے ملکوں کے نئے ہتھکنڈے سے تعبیر کیا  کہ جسے یہ ممالک ایران کے خطرے سے مقابلے کے طور پر استعمال کر رہے ہیں-

امریکی صدر ٹرمپ حقائق کو مسخ کر کے اور ایسے مسائل اٹھا کر جن کا ان کے بقول ایٹمی معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے حقیقت میں مشترکہ جامع ایکشن  پلان سے پہلے والی پوزیشن پر جانا چاہتے ہیں اور اس طرح سے وہ مشترکہ جامع ایکشن پلان کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس باے میں لکھا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ایران کی مشتبہ فوجی سائٹوں کا مزید معائنہ کیا جائے۔ لیکن اسے ایران پر دباؤ ڈالنے کے مقصد سے اس کے خلاف عالمی اجماع قائم کرنے میں دشواری پیش آئے گی۔ 

 امریکہ نے مغربی ایشیاء سے شمالی افریقا تک کے علاقوں میں امن قائم کرنے کے بہانے اپنے یکطرفہ اقدامات کے ذریعے اس پورے علاقے کو جنگ کی آگ میں جھونک دیا ہے - امریکہ نے گذشتہ چار عشروں کے دوران عملی طور پربارہا یہ ثابت کیا ہے کہ وہ علاقے میں امن و امان قائم کرنے کے درپے نہیں ہے اور اس نے حقیقی دھمکیوں اور خطرات کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا ہے۔

ٹیگس