Dec ۱۲, ۲۰۱۷ ۱۷:۱۷ Asia/Tehran
  • حسن نصراللہ کا اہم خطاب اور لبنان میں امریکہ اور صیہونی حکومت مخالف مظاہرے

پیر کے روز جنوبی بیروت میں بیت المقدس کے دفاع میں وسیع پیمانے پر مظاہرے ہوئے جس میں دسیوں ہزار افراد اور مختلف سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں نے شرکت کی-

یہ مظاہرے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے قدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کئے جانے کے حالیہ فیصلے کے ردعمل میں کئے گئے۔ گذشتہ جمعرات کو حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل سید حسن نصراللہ نے اپنی تقریر میں سبھی سے اس مظاہرے میں شرکت کی اپیل کی تھی۔ مظاہرین اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز اٹھاکر اور نعرے لگاکر ٹرمپ کے حالیہ دشمنانہ فیصلے کی مذمت کر رہے تھے۔ اور اس بات پر تاکید کر رہے تھے کہ بیت المقدس فلسطین کا ابدی اور دائمی دارالحکومت ہے۔

پیر کے روز ہونے والے مظاہرے کے دوران سید حسن نصراللہ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے مظاہرے کے شرکاء کو خطاب کیا ۔ حزب اللہ کے سربراہ نے اپنی تقریر میں ایک بار پھر کہا کہ بیت المقدس فلسطین کا ابدی دارالحکومت ہے اور ہم اس سے دستبردار نہیں ہو سکتے اور اگر فلسطینی عوام اپنے اوپر پڑنے والے دباؤ اور ڈکٹیٹیشن کا مقابلہ اور مخالفت کا اعلان کر کے بیت المقدس کو فلسطین کا ابدی دارالحکومت باقی رکھنے پر ڈٹ جائیں تو کوئی بھی انہیں، ان کی سرزمینوں سے الگ نہیں کر سکتا- 

انہوں نے لبنان اور دیگر ملکوں میں حال ہی میں ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف ہونے والے مظاہروں کی قدردانی کی اوران مظاہروں کے جاری رہنے پر تاکید کی- حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ٹرمپ یہ سوچ رہے تھے کہ وہ قدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے کر پوری دنیا کو اپنے ساتھ کر لیں گے اور سب امریکہ کے ساتھ شامل ہونے میں ایک دوسرے سے سبقت لیں گے لیکن ٹرمپ نے دنیا کی مخالفت کا مشاہدہ کرلیا ہے اور وہ عالمی سطح پر تنہا پڑ گئے ہیں اور صرف صیہونی حکومت ہی ان کی حامی ہے۔ سید حسن نصراللہ نے ٹرمپ کے فیصلے کو صیہونی حکومت کے خاتمے کا آغاز قرار دیا۔

صیہونی غاصبوں کے خلاف اور مقبوضہ بیت المقدس کی حمایت میں مظاہروں اور اجتماعات کی بہت زیادہ اہمیت ہے اور اس طرح کے مظاہرے غاصب صیہونیوں اور امریکی فیصلوں کے خلاف انتہائی اہمیت رکھتے ہیں اسی سبب سے سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹرمپ کے اقدام کا اہم ترین جواب اس وقت فلسطین کے پورے علاقے میں فلسطینی عوام کی تحریک انتفاضہ کے نئے دور کا اعلان ہے۔ لیکن قابل غور نکتہ سید حسن نصراللہ کی تقریر میں، صیہونی حکومت کے زوال کا قریب ہونا ہے اور قدس کے حوالے سے ٹرمپ کا اقدام ،صیہونی حکومت کے زوال اوراس کے خاتمے کے لئے الٹی گنتی شروع ہونے کا آغاز ہے۔ قدس کو صیہونی حکومت کا دارالحکومت تسلیم کرنے اور امریکی سفارتخانے کو تل ابیب منتقل کرنے کے ٹرمپ کے حالیہ فیصلے کے خلاف عالمی سطح پر حکومتوں اور عوام  کی مخالفتیں، غیر معمولی تھیں۔ اور  یہ مسئلہ اس بات کا غماز ہے کہ علاقے میں غاصب صیہونی حکومت کو مستحکم کرنے کے مقصد سے امریکی اقدامات کے خلاف عالمی سطح پر ردعمل سامنے آرہا ہے اور سبھی اس کے مخالف ہیں۔ سید حسن نصراللہ کے خطاب میں ایک قابل غور نکتہ کہ جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا یہ ہے کہ ٹرمپ نے اپنے اس متنازعہ فیصلے کے ذریعے بنیادی غلطی کی ہے ۔ ایسی غلطی کہ جس کے خلاف علمی حلقوں میں بھی وسیع پیمانے پر مخالفت کی گئی ہے۔ 

امریکہ کی شیکاگو یونیورسٹی کے پروفیسراور اوفینسیو ریالزم کے بانی جان مرشائمر نے پیر کے روز یونیورسٹی میں اپنی تقریر میں کہا کہ اسرائیل کے قدس کو دارالحکومت قرار دینے کا امریکی حکومت کا حالیہ فیصلہ، واشنگٹن کی خارجہ پالیسی میں ایک بہت بڑی غلطی ہے۔ 

اسرائیل کے لئے امریکہ کی ہمہ جانبہ حمایت سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ، مشرق وسطی کے علاقے کے بحرانوں خاص طور پر فلسطین کے بحران کے منصفانہ حل کے لئے قابل اعتماد فریق اورغیرجانبدار ثالثی کا کردار ادا نہیں کرسکتا۔ اسی طرح کی غلطیوں کا یہ نتیجہ ہے کہ امریکہ عالمی سطح پر الگ تھلگ پڑگیا ہے اور صیہونی حکومت کے زوال  کےعمل میں بھی تیزی لانے کا سبب بنی ہیں۔ اور یہ وہی حقیقت ہے کہ جس کا امریکی حلقوں نے بھی بارہا اعتراف کیا ہے۔ چنانچہ کچھ عرصہ قبل امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ اسرائیل آخرکار آئندہ چند برسوں سے زیادہ دوام نہیں پاسکے گا۔ علاقے میں عوام کے وسیع پیمانے پر امریکہ اور صیہونی حکوت مخالف مظاہرے خاص طور پر لبنانی عوام کے مظاہرے اس امر کے غماز ہیں کہ رائے عامہ علاقے کے لئے امریکہ کی ڈکٹیٹ کی ہوئی پالیسیوں سے مرعوب نہیں ہوگئی-          

ٹیگس