Aug ۱۴, ۲۰۱۸ ۱۱:۴۸ Asia/Tehran
  • اسرائیل کے ساتھ امارات کا، سو ملین ڈالر سے زائد کا فوجی معاہدہ

متحدہ عرب امارات نے اسرائیل کے ساتھ سو ملین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کئے ہیں-

بین الاقوامی صیہونی تنظیم کے رکن، مصنف اور نامہ نگار مہدی مجید نے صیہونی حکومت کی فوجی اینٹلی جنس سے وابستہ ذریعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے اس ملک کے ایک تاجر کے ذریعے، اسرائیل کی فوجی صنعت کمپنی آئی ایم آئی کے ساتھ سو ملین ڈالر سے زیادہ قیمت کے فوجی سازو سامان خریدنے کے لئے ایک معاہدے پر دستخط کئے ہیں، جس میں ایک سوپانچ ملی میٹر کیلیبر کی توپیں، اور مرکاوا ٹینک شامل ہیں

صیہونی حکومت کے ساتھ عرب ملکوں کے تعلقات کی بحالی کے نئے دور میں، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا نام پیش پیش رہاہے۔ ابوظہبی نے حتی ریاض سے پہلے اسرائیل سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی ہے اور اس وقت اسرائیل کے ساتھ اس کے روابط معمول سے زیادہ ہوگئے ہیں اور اس حد تک بڑھ گئے ہیں کہ رائے عامہ کے لئے حساسیت کا باعث بنے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کو، صیہونی حکومت سے عالم اسلام منجملہ عرب رائے عامہ کی نفرت و بیزاری کا بخوبی اندازہ ہے اور اگرچہ اس نے تل ابیب کے ساتھ اپنے تعلقات کو فروغ دیا ہے لیکن اس کی کوشش ہے کہ رائے عامہ کی مخالفت سے دوچار نہ ہو۔ اسی بنیاد پر اس نے اسرائیل کے ساتھ سو ملین ڈالر کا یہ فوجی معاہدہ ایک تاجر کے توسط سے کیا ہے۔  

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ اسرائیل کے ساتھ ہونے والا حالیہ معاہدہ، یمن کے خلاف جنگ میں ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے لئے کیا گیا ہے۔ اسی بنا پر بین الاقوامی صیہونی تنظیم کے رکن، مصنف اور نامہ نگار مہدی مجید نے اپنے انکشاف میں بھی کہا ہے کہ اس معاہدے پر دستخط، جنگ یمن میں سعودی اتحاد کی مدد کے لئے کئے گئے ہیں۔ اب تک متعدد رپورٹیں، یمن کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے ذریعے سعودی اتحاد کی حمایت کے تعلق سے شائع ہوچکی ہیں۔ 

یمن کے خلاف جنگ کے ابتدائی مہینوں میں ہی ذرائع ابلاغ نے رپورٹ دی تھی کہ اسرائیلی طیاروں نے ہتھیاروں، میزائلوں اور فوجی ساز وسامان کی کھیپ، عسیر میں واقع خمیس مشیط فوجی اڈے میں، یمن پر جارحیت کےلئے سعودی اتحاد کی فضائیہ کی مدد و حمایت کے لئے منتقل کی ہے- عالمی مسائل کے فرانسیسی قلمکار اور تجزیہ نگار" تیری میسان " نے اکتوبر 2015 میں یمن میں صیہونی حکومت اور آل سعود کے تعاون کے بارے میں کہا تھا کہ یہ دو حکومتیں بظاہر ایک دوسرے کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں رکھتی ہیں لیکن اسرائیل عملی طور پر خلیج فارس تعاون کونسل کا رکن ہے اور یہ کونسل اپنے اجلاسوں میں اسرائیلی حکام کو دعوت دیتی ہے-

یمن کی جنگ کے چوتھے سال میں داخل ہونے کے ساتھ ہی سعودی اتحاد کے لئے اسرائیلی حمایت میں اضافہ ہو رہا ہے اس لئے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک یمن کے دلدل میں دھنس چکے ہیں اور انہیں اس دلدل سے نکالنے کے لئے اسرائیل کی حمایت کی زیادہ ضرورت ہے۔ درحقیقت اگرچہ مہدی مجید نے متحدہ عرب امارات کے توسط سے اسرائیل سے ہتھیار خریدے جانے کی جانب اشارہ کیا ہے لیکن تل ابیب یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد کی انٹلی جنس اور تکنیکی شعبے میں بھی مدد کر رہا ہے-

 یمن میں سعودی عرب کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کے سلسلے میں امریکہ اور صیہونی حکومت کا رخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ سعودی حکام نے امریکہ کے اشارے پر اور اسرائیل سے ہتھیاروں کی فراہمی کی ضمانت کے بعد ہی 26 مارچ 2015 سے یمن پر وحشیانہ حملے شروع کئے تھے۔  یمن کی جنگ میں سعودی عرب کو صیہونی حکومت کی طرف سے مل رہی حمایت اور تعاون کے سلسلے میں مختلف رپورٹیں پہلے ہی سامنے آ چکی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ جنوبی سعودی عرب کی ایک چھاؤنی میں کچھ صہیونی فوجی افسران کی ہلاکت اور یمن کے مختلف علاقوں میں ہوئے ہوائی حملوں میں اسرائیلی جیٹ طیاروں کے استعمال سے بھی یمن کی جنگ میں صیہونی حکومت کے شامل ہونے کے پختہ ثبوت ملتے ہیں۔

سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات میں ایسی گرمجوشی پہلے کبھی دکھائی نہیں دی جیسی یمن کی جنگ میں آل سعود اور صیہونی حکومت کے درمیان دکھائی دے رہی ہے اور سعودی شہزادے نے بھی مختلف تقریروں اور بیانات میں اس کا خیر مقدم کیا ہے یہاں تک کہ آل سعود نے صیہونی حکومت کے ساتھ کھل کر قریبی اقتصادی اور سفارتی تعلقات کو گرین سگنل دے دیا ہے۔

 

 

 

ٹیگس