Dec ۱۰, ۲۰۱۹ ۱۷:۰۰ Asia/Tehran
  • علاقے میں امن و صلح کے قیام میں مدد کے لئے ایران کی آمادگی پر ظریف کی تاکید

غیر ملکی فورسز کی موجودگی کبھی بھی مغربی ایشیا کے لئے امن و ثبات کا باعث نہیں بنی ہے-

اسلامی جمہوریۂ ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے پیر کو ترکی کے شہر استنبول میں، وزرا خارجہ کی آٹھویں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں اپنی تقریر میں اس بات کا ذکر کرتے ہوئے علاقے میں امن وسلامتی کے تعلق سے ایران کے نقطۂ نگاہ کو بیان کیا-

تجربے سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ امریکہ کبھی بھی علاقے میں امن و سلامتی کے قیام یا دہشت گردی کی بیخ کنی کے درپے نہیں رہا ہے- امریکہ در حقیقت گذشتہ چند عشروں کے دوران مغربی ایشیا میں رونما ہونے والے تمام تنازعات ، بحرانوں اور جنگوں کا اصلی عامل ہےکہ جو اس علاقے پر مسلط کی گئیں- 

جواد ظریف نے استنبول اجلاس میں کہا کہ ایران ، افغان حکومت کی مرکزیت میں طالبان سمیت تمام سیاسی گروہوں اور دھڑوں کی مشارکت سے ، افغان امن عمل کی حمایت کرتا ہے انہوں نے مزید کہا کہ 2001 میں افغانستان سے متعلق بون کانفرنس کی کامیابیوں کی حفاظت کے لئے امن عمل کو آسان بنانے اور خاص طور پر اسلامی جمہوریہ افغانستان کے آئین کے دائرے میں،  ہمارے اختیار میں جو بھی وسیلہ ہے اس کے ذریعے سے ہر قسم کی سیاسی راہ حل تک رسائی کے لئے، اس سے مستحکم بنیاد کے طور پر استفادہ کریں-

جواد ظریف کا اشارہ استنبول اجلاس میں، براہ راست ان خطرات کی جانب ہے کہ جو علاقے میں اغیار کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں سے وجود میں آئے ہیں- جواد ظریف نے اسی سلسلے میں کہا کہ ہمیں افغانستان میں داعش کے روز افزوں خطرات کو، جو مزید خونریزی اور خطرناک فرقہ وارانہ رجحانات میں فروغ کا باعث بنےہیں، ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے- اورجس طرح سے کہ کسی کو بھی شام اور عراق میں داعش اور دیگر دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اور ان کی حمایت  سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے اسی طرح افغانستان اور وسطی ایشیا میں دہشت گردی کے فروغ سے ان کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا- یہ دہشتناک اور خوفناک عمل کو کسی بڑے المیے کے رونما ہونے سے پہلے ہی روکنا ہوگا- 

رہبر انقلاب اسلامی آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے بیانات میں بارہا اس بات کی جانب اشارہ کیا ہے کہ امریکہ علاقے میں امن قائم کرنے پر قادر نہیں ہے- اس کی واضح مثال افغانستان میں امریکہ کی چودہ سالہ موجودگی ہے کہ جس سے نہ صرف افغان عوام کو امن و سلامتی فراہم نہیں ہوئی ہے بلکہ سیکورٹی کی صورتحال مزید بدتر ہوگئی ہے-

ایسے حالات میں افغانستان میں امن کے قیام کے لئے علاقائی و بین الاقوامی کوششوں میں تیزی لایا جانا ہی علاقے میں بدامنی کی مشکل کو عبور کرنے کا واحد راستہ ہے- اسلامی جمہوریہ ایران نے اس سلسلے میں افغانستان کو کسی بھی قسم کی مدد دینے سے دریغ نہیں کیا ہے- 

اس میں شک نہیں ہے کہ افغانستان میں قیام امن علاقے کے تمام ممالک کے مفاد میں ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران بھی ہمیشہ افغانستان میں قیام امن کے لئے افغانوں کے درمیان مذاکرات پر تاکید کرتا رہا ہے- افغانستان میں برسوں سے جاری بحران اور تشدد سے پتہ چلتا ہے کہ غیرملکی خاص طور سے علاقے کے باہر کی مداخلتیں نہ صرف افغانستان میں بدامنی اور بحران میں شدت کو ہوا دے رہی ہیں بلکہ حالات کو مزید پیچیدہ بنا رہی ہیں- اسی بنا پر اسلامی جمہوریہ ایران نہ صرف افغانستان میں دونوں فریقوں کو اس ملک میں امن و صلح کی دعوت دے رہا ہے بلکہ اس کا خیال ہے کہ طالبان گروہ بھی حالات کو سمجھتے ہوئے اپنے موقف کو تبدیل کرتے ہوئے افغانستان کے بحران کے سیاسی حل میں مدد کرے- کیونکہ اب اس ملک میں جنگ و خونریزی کا دور ختم ہوچکا ہے اور افغان عوام کو توقع ہے کہ تمام افغان گروہ بحران کے حل میں ایک دوسرے کا ساتھ دیں گے  اور ایک شاد و آباد افغانستان کے لئے کوشش کریں گے-

ایران نے افغانستان کی معاشی و اقتصادی مدد کے لئے چابہار بندرگاہ کے ذریعے بین الاقوامی سمندروں تک افغانستان کی رسائی کو آسان بنایا ہے- اس وقت ایران ،  چابہار - زاہدان ریلوے لائن کی تکمیل میں مشغول ہے کہ جو شمال جنوب کوریڈور کا ایک اہم حصہ ہے یہ ریلوے لائن، افغانستان اور وسطی ایشیا کے ملکوں کو چابہار کے راستے سے آزاد پانیوں سے متصل کردے گی-ایران اسی طرح امن کے قیام کے لئے ان تمام فریقوں کے ساتھ جو مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، تعاون کے لئے تیار ہے- اقوام متحدہ نے بھی بارہا افغانستان میں مدد کے لئے ایران کی کوششوں کو سراہا ہے-

ان تحفظات کے پیش نظر  استنبول ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں جواد ظریف کا خطاب مغربی ایشیا مین امن و صلح کے قیام کے لئے ایران کے شفاف نقطۂ نگاہ پر دوبارہ تاکید کے مترادف ہے-    

یه بات قابل ذکر ہے کہ ہارٹ آف ایشیا کانفرنس کا سب سے پہلا اجلاس 2011ء کو، 14 ممالک بشمول ترکی، افغانستان، آذربائیجان، چین، ہندوستان، ایران، قازقستان، کرغیزستان، پاکستان، روس، سعودی عرب، تاجیکستان، ترکمانستان اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ کی شرکت سے منعقد کیا گیا۔

 

     

ٹیگس