Apr ۱۳, ۲۰۱۷ ۲۳:۱۳ Asia/Tehran
  • جوانوں پر ثقافتی یلغار کے اثرات ( پہلا حصہ )

تحریر: نوید حیدر تقوی

جوانی، زندگی کے پر تلاطم مراحل میں سے ایک ہے اور اس کے ساتھ جوانی کا دور، زندگی کا بہترین دور شمار ہوتا ہے۔

یہ شاداب و پر نشاط دور، جسمانی و نفسیاتی توانائی اور تلاش و کوشش اور نئے تجربے کا دور ہوتا ہے، وہ بھی اس طرح کہ جوانی کے دور کی کارکردگی کی بنیاد پر، انسان کے مستقبل کی پیشنگوئی کی جاسکتی ہے۔

اگر کسی ملک کا نوجوان طبقہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے راستے پر قدم بڑھائے تو وہ ملک ترقی و پیشرفت کی سمت گامزن ہوسکتا ہے۔

اس لئے معمولا اسلامی تہذیب و ثقافت کے دشمن، ملکوں کے جوانوں کو نشانہ بناتے ہیں اور ان کو منحرف کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں اور یہ مسئلہ ملکوں میں بڑھتی ہوئی نوجوان آبادی کو دیکھتے ہوئے انتہائی پیچیدہ صورت حال اختیار کر گیا ہے۔

قوموں کی اصلی شناخت، ان کی ثقافت ہوتی ہے کہ جو اس ملت و قوم کو ترقی و پیشرفت، عزت و افتخار، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بین الاقوامی سطح پر لاکھڑا کرتی ہے۔

اگر کسی ملک کی ثقافت، انحطاط کا شکار ہوجائے اور ایک ملک اپنی ثقافتی شناخت کو کھو بیٹھے، تو حتی دوسرے اس ملک میں ترقی و پیشرفت کے سامان مھیہ بھی کردیں تو وہ ملک انسانی کرامت کے اعلی مقام پر فائز نہیں ہوسکتا اور اس ملک کے قومی مفادات محفوظ نہیں رہ سکتے۔

دنیا کی تسط پسند طاقتیں چھوٹے و بڑے اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے، انہی ہتھکنڈوں کو استعمال کرتی ہیں۔

 تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی سے پتہ چلتا ہے کہ تسلط پسند طاقتوں نے بارہا دیگر ملکوں پر فوجی حملے کیئے ہیں اور دنیا کو متعدد جزیروں میں تقسیم کیا ہے۔

 حملے، جنگی جرائم اور کالونیوں یا نوآبادیوں جیسے الفاظ، قوموں کی ثقافت، تاریخ اور مفادات پر وسیع حملوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

البتہ آج جدید ٹیکنالوجی کے اثرات و اس کی ترقی و پیشرفت نے فوجی حملوں کی اسٹراٹیجی کو شکست دے دی ہے، اس لئے حملہ آوروں نے سافٹ وار کے نام سے نئی جنگی حکمت عملی پر عمل درآمد شروع کردیا ہے۔

 کیونکہ یہ حکمت عملی، دنیا میں ان کے تسلط کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مناسب ترین راستہ شمار ہوتی ہے۔

افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ سب سے پہلے ثقافتی یلغار کی بھینٹ چڑھنے والے نوجوان ہیں کیونکہ نوجوان ہی تسلط پسند قوتوں کے اہداف کو خاک میں ملانے کے لئے کسی بھی معاشرے کا عظیم سرمایہ شمار ہوتے ہیں۔

 اس بنیاد پر نوجوانوں کے حوالے سے ایک اہم موضوع، نوجوانوں کے گرد ثقافتی یلغار کا مسئلہ ہے۔

 رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سیدعلی خامنہ ای ثقافتی یلغار کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ثقافتی یلغار یہ ہے کہ ایک سیاسی یا اقتصادی گروہ اپنے سیاسی اہداف کے لئے اور ایک قوم کو اپنا غلام بنانے کے لئے، اس قوم پر ثقافتی بنیادوں پر حملے شروع کر دیتا ہے۔

اس قسم کا گروہ اپنے اہداف کے حصول کے لئے مختلف و نئی قسم کی چیزیں ملکوں میں داخل کرکے قوم کو نشانہ بناتے ہیں لیکن یہ سارا عمل زور و زبردستی کے ذریعے انجام پاتا ہے اور قومی و ثقافتی اقدار کو تبدیل کیا جاتا ہے، اس کا نام ثقافتی یلغار ہے۔

 رہبر انقلاب اسلامی معاشرے کے مسیحا کے عنوان سے، امت اسلامیہ کو نصیحت فرماتے ہیں کہ دشمن، غلط ثقافتی راستوں، فحاشی و بدعنوانی کے ذریعے اس کوشش میں ہے کہ ہمارے جوانوں کو ہم سے چھین لے۔

 ثقافتی لحاظ سے دشمن جو کام کر رہا ہے نہ صرف ثقافتی یلغار ہے بلکہ یقینی طور پر کہا جاسکتا ہے کہ ثقافتی شب خون مارا جارہا ہے، ثقافت کو غارت و نابود کیا جا رہا ہے اور ثقافت کا قتل عام ہو رہا ہے۔

ٹیگس