May ۰۹, ۲۰۱۷ ۲۳:۲۶ Asia/Tehran
  • عقل، خداوندعالم کی عظیم نعمت  (حصہ دوم)

تحریر : حسین اختر رضوی

انسان کی سعادت و کامرانی عقل و دانش میں ہے اور ان کے درمیان اٹوٹ رابطہ پایا جاتا ہے اور یہ رابطہ عرفانی مسائل اور مذہبی امور میں بہت واضح طور پر نظر آتا ہے۔ انسان کے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ جہالت سے نکل سکتا ہے اور اچھے برے، بہترین اور عمدہ امور کی تشخیص دے سکتا ہے اور صحیح راستے پر گامزن ہوسکتا ہے۔

 یہی وجہ ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے انسانوں کی ہدایت و گمراہی کو عقل و جہل سے مربوط قرار دیتے ہوئے فرمایا ہے : عقل انسان کی رہنمائی کرکے اسے نجات عطا کرتی ہے مگر جہالت و حماقت انسان کو گمراہ کرکے اسے نابود کردیتی ہے۔ کیونکہ عقل انسان کو ایمان ، اخلاقی خوبیوں اور نیکی و کمالات کی جانب دعوت دیتی ہے اور عقل ہی کے ذریعے حق کو باطل ، نیکی کو برائی سے جدا کیا جاتا ہے اور بے راہ روی و گمراہی سے خود کو بچایا جاسکتا ہے۔

درحقیقت عقل نور ہے جس کی شعاعوں میں رہ کر انسان خدا کی عبادت و پرستش کرتا ہے اور اسی کے ذریعے خلد بریں حاصل کرتا ہے۔ فرزند رسول حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں: حقیقی عقل وہ ہے جس کے ذریعے خدا کی عبادت کی جائے اور اس کے ذریعے جنت حاصل کی جائے۔انسان کی شرافت اس کی عقل و خرد کے مطابق ہے جب کہ ہر شخص کی ذلت و رسوائی اس کی جہالت میں پوشیدہ ہے ۔ کبھی کبھی انسان کی جہالت کسی ایک امر کے متعلق اسے ایسے امور کی طرف رہنمائی کرتی ہے جس کی وجہ سے انسان کی اہمیت و شخصیت ختم ہوجاتی ہے اور اسے ذلیل و خوار کردیتی ہے۔ امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: بہت سے ایسے محترم و معظم افراد موجود ہیں جن کی جہالت و حماقت نے انہیں ذلیل و رسوا کردیا ہے ، اسی لئے تاکید کی گئی ہے کہ عقل و بصیرت سے استفادہ کرکے جہالت و نادانی کا مقابلہ کرو۔

اسلامی ثقافت میں اجر و ثواب اور قربت کا تعین بھی عقل ہی کے ذریعے ہوتا ہے ۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: خداوند عالم قیامت کے دن اپنے بندوں کے درجات کو ان کی عقل و خرد کے مطابق بلند کرے گا اور پھر بندہ، خدا سے قربت حاصل کرلے گا۔ قرآن کریم نے بھی عقل  و خرد کی بے پناہ اہمیت بیان کی ہے، جہنمیوں کی گناہوں اور بدبختی و شقاوت کا سب سے بڑا عامل عقل کی کمی کو قرار دیا ہے۔ قرآن کریم نے خدا کی شناخت اور سعادت و نجات کی بنیاد عقل و خرد کو قرار دیا ہے اور اسی بنیاد پر دانشوروں کو اپنا مخاطب، صاحبان عقل و خرد اور صاحبان بصیرت کے عنوان سے قرار دیا ہے۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اس نکتے کی طرف کہ انسان اس چیز کا دشمن ہوتا ہے جسے وہ نہیں جانتا اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں نے چار باتیں کہی ہیں جس کو پروردگارعالم نے اپنی مقدس کتاب قرآن کریم میں بیان کیا ہے ان میں سے ایک یہ کہ جو شخص کسی چیز کا علم نہیں رکھتا اس کا دشمن ہوتا ہے ۔خداوندعالم سورہ یونس کی انتالیسویں آیت میں فرماتا ہے: لوگ اس چیز کو جھوٹا قراردے دیتے ہیں جس کے بارے میں انہیں علم نہیں ہوتا ۔

 

 

ٹیگس