Sep ۱۶, ۲۰۱۵ ۱۳:۲۳ Asia/Tehran
  • شام کے خلاف سازشیں  جاری
    شام کے خلاف سازشیں جاری

شام کے وزیر اطلاعات و نشریات عمران الزعبی کا کہنا ہے کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سامراج کے زمانے کی ذہنیت پر عمل پیرا ہیں جو کب کا ختم ہوچکا ہے۔

شام کے خلاف برطانوی حکام کی متضاد اور غیر اصولی پالیسیوں پر شام کے حکام ایک عرصے سے تنقید کرتے چلے آئے ہیں۔ شام کی حکومت کے خلاف لندن کی پالیسیوں نیز تکفیری اور دہشتگرد گروہوں کی حمایت سے برطانوی حکام کا منافقانہ چہرہ کھل کر سامنے آجاتا ہے۔
حال ہی میں برطانیہ نے ایک تجویز  پیش کی ہے شام میں ایک عبوری حکومت قائم کیے جانے اور بشار اسد کو صدارت کے عھدے سے ہٹادیا جائے۔ اس تجویز پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے شام کے وزیر اطلاعات و نشریات عمران الزعبی نے شام کے داخلی امور میں برطانیہ کی مداخلت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ برطانیہ کو شام کے عوام کے لئے فیصلہ کرنے کا کوئي حق حاصل نہیں ہے۔
الزعبی نے کہا کہ برطانیہ کا یہ موقف اسی طرح ہے جس طرح سے شام کے عوام یہ تجویز دیں کہ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو تین ماہ کے بعد وزارت عظمی سے ہٹادیا جائے یا برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوید ہیمنڈ اپنے عھدے سے سبکدوش ہوجائيں۔
 برطانیہ نے دوہزار گيارہ اور شام کے خلاف مغربی اور عرب ملکوں کی سازشوں کے شروع ہونے کے وقت سے شام کی حکومت کا بائيکاٹ کررکھا ہے اور اس نے شام میں داعش اور النصرۃ جیسے دہشتگردوں کو منظم کرکے ان کی سرپرستی کی ہے۔
شام کے ایک کروڑ سے زائد باشندوں کا آوارہ وطن ہونا واشنگٹن، لندن اور دیگر ملکوں کی سازشوں کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے آج مشرق وسطی میں آگ لگی ہوئي ہے اور اب شام کے بحران کے نتیجے میں تارکین وطن کا سیلاب یورپ کی طرف جاری ہوچکا ہے۔ امریکہ کی سربراہی میں مغرب نے ہمیشہ سے یہ کوشش کی ہے کہ شام کے بحران میں شدت لاکر، بیرون ملک مقیم شام کے مخالفین کی حمایت کرے اور مخالفوں کی ایک فوج بناکر شام میں سیاسی عمل کی بھاگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لے۔
 وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور شام کی فوج اور حکومت کی استقامت سے یہ ظاہر ہوچکا ہے کہ امریکہ نے شام کے تعلق سے کتنی بڑی غلطی کی ہے۔ اپنی حکومت کا انتخاب کرنے کے لئے شام کی قوم کا حق تسلیم شدہ ہے اور یہ صرف شام کی قوم ہی ہے جو صدر بشار اسد کے اقتدار میں رہنے یا نہ رہنے کے بارے میں فیصلہ کرسکتی ہے۔
شام میں حکومت کی تبدیلی پر مغرب کا اصرار اور وہ بھی ایسے وقت جب امریکہ اور یورپ شام میں بار بار تہذیبی اور انسانی المیوں کا سبب بن رہے ہیں ایک ناقابل قبول مسئلہ ہے۔
 تکفیری دہشتگرد گروہ شام میں تاریخی اور قدیمی آثار کو تباہ کررہا ہے اور شام کی آدھی آبادی بھی بے گھر ہوچکی ہے۔ شام، مغرب اور علاقے کے بعض ملکوں کے لالچی مفادات نیز سازشی لین دین کے نتیجے میں تھکادینے والی جنگ کا شکار ہوگيا ہے۔ مغرب بدستور اپنے ان تخریبی مواقف پر اصرار کررہا ہے جن سے شام کی قوم پرامن زندگي، چین اور سکون سے محروم ہوچکی ہے اور اس کی چند ہزار سالہ تہذیبی میراث بھی تباہ ہوچکی ہے اور مغرب شام کے کھنڈروں پر نیا مشرق وسطی بنانے کی کوشش کررہا ہے۔   

ٹیگس