سی بی ایس کے ساتھ ڈاکٹرحسن روحانی کا انٹرویو
Sep ۲۲, ۲۰۱۵ ۱۷:۴۵ Asia/Tehran
اسلامی جمہوریہ ایران کے صدرڈاکٹر حسن روحانی نے ایٹمی سمجھوتے کے حصول کی راہ کو انتہائي دشوار اور نشیب و فراز کا حامل قرادیتے ہوئے اسے فریقین کے لئے ایک بڑی کامیابی سے تعبیرکیا ہے۔
ڈاکٹرحسن روحانی نے اتوارکے روزسی بی ایس ٹی وی کے پروگرام "ساٹھ منٹ" میں پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کے حصول سے متعلق ایران کے مقاصد کے بارے میں مغرب کے بے بنیاد پروپگنڈے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر کوئی ملک ایٹم بم بنانے کے درپے ہو اوریہ سمجھتا ہو کہ یہ اس کے مفاد میں ہے تو بلا شبہ یہ ایک بہت ہی برا معاہدہ ہے، لیکن اگر وہ ابتدا ہی سے صرف پرامن ایٹمی ٹیکنالوجی پر دسترسی چاہتا ہو تو پھر اس نے یہ معاہدہ کرکے کچھ نہیں کھویا۔ڈاکٹرحسن روحانی نے اسی چیز کے پیش نظر واضح طور پر کہا کہ ہم نے اس سمجھوتے میں کچھ عرصے کے لئے بعض محدویتوں کو تسلیم کیا ہے کہ جس کا مقصد عالمی سطح پر اعتماد سازی کو فروغ دینا ہے۔ اعتماد سازی ایک ایسا موضوع ہے کہ جسے ایران کے ایٹمی پروگرام سمیت بہت سے مسائل کے حل کی کلید قراردیا جاسکتا ہے، لیکن اس سلسلے میں کوئي بات کرنے سے قبل کہ اعتماد کس طریقے سے بحال کیا جائے؟ اس نکتے پر توجہ کی ضرورت ہے کہ اعتماد کس وجہ سے ختم ہوا۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ مغرب کے نقطہ نگاہ سے ایران کا معاملہ ایٹمی پروگرام کے سلسلے میں اعتماد سازی سے ہٹ کر ہے اور مغربی دنیا کے لئے ایک چیلنج ہے۔ بنیادی طورپرمغرب خصوصا امریکا کے ساتھ ایران کا معاملہ، ماضی کے تعلقات میں پائے جانے والےگہرے اختلافات نیزعلاقائي اورعالمی حالات و واقعات کے بارے میں پائے جانے والےتضادات سے مربوط ہے۔
ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فورا بعد ہی امریکا نے خود کو ملت ایران کے عزم و ارادے کے مد مقابل پایا اور اسی کی وجہ اسلامی انقلاب کا سامراج مخالف نظریہ تھا۔
ظلم کے خلاف جدوجہد، مستضعف اورمحروم اقوام کے امورمیں بڑی طاقتوں کی مداخلت پسندانہ پالیسیوں کی نفی ایسی جملہ خصوصیات تھیں کہ جنہیں امریکا اپنے سامراجی عزائم کے منافی سمجھتا تھا۔
چنانچہ یہ ایک واضح سی بات ہے کہ جب تک امریکا کی اس پالیسی میں کوئي تبدیلی نہیں آتی اس وقت تک تضاد اور ٹکراؤ کا ماحول برقراررہے گااورفطرتا دشمنی بھی جاری رہے گی۔ البتہ صدرڈاکٹرحسن روحانی کے بقول حالیہ چند برسوں کے دوران ایران نے جو بنیادی اقدامات انجام دئیے ہيں ان کے آثار بتدریج نمایاں ہونے شروع ہوگئے ہیں کہ جس کی ایک مثال ایٹمی تنازعہ کے سلسلے میں آنے والی تبدیلی ہے۔
ایران اور ایٹمی توانائي کی عالمی ایجنسی " آئي اے ای اے" نے اعتماد سازي کے مقصد سے اب تک اہم اور بڑے قدم اٹھائے ہیں اور اس ادارے کے سربراہ "یوکیا آمانو" کے حالیہ دورے کے موقع پر مزید اہم اور بنیادی اقدامات کئے گئے ہيں۔
ایران نے " آئي اے ای اے" کے ساتھ ایٹمی مسئلے کو مکمل طور سے حل کئے جانے کے مقصد سے ایک سمجھوتہ کیا ہے جو بذات خود اس پیچیدہ مسئلے کو مزاکرات کی میز پر حل کئے جانے کی علامت ہے۔
مبصرین کے بقول یہ امر غلط فہمیوں کو رفع کرنے میں موثر واقع ہوگا۔اگرچہ اعتماد سازی کے راستے میں یہ پہلا قدم شمار ہوتا ہے تاہم اس سلسلے میں صدر ڈاکٹر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ ایران اور امریکا کے درمیان اعتماد سازی کے لئے ابھی بہت وقت درکار ہے۔
اگر بغور جائزہ لیا جائے تو حالیہ نصف صدی کے دوران امریکا کی پالیسياں اوراقدامات ایران کے مفادات کے منافی رہے ہیں کہ جسے ملت ایران ہرگزفراموش نہیں کرسکتی۔
ایران کے خلاف آٹھ سالہ غیرمساوی جنگ کے دوران امریکا نےعراق کے ڈکٹیرصدام کی کھل کرمدد وحمایت کی، صدام نے امریکا اورمغرب کے ديئے ہوئے کیمیاوی ہتھیاروں سے ایرانی عوام کو نشانہ بنایا، امریکا نے اپنے جنگي بحری جہاز سے ميزائل فائرکرکے ایرانی مسافربردارطیارے کو دوسو نوے مسافروں سمیت خلیج فارس میں غرق کردیا، امریکا نے ایران کے خلاف برسر پیکاردہشت گروہوں کےاقدامات کی حمایت کے ساتھ ہی ایران کے تعلق سے مجموعی طور پر بہت زیادہ غلطیاں کیں کہ جن کے ازالے کی ضرورت ہے۔
صدرڈاکٹر حسن روحانی کا کہنا ہے کہ اگرامریکا دشمنی اورمخاصمت کو ترک کرکے نیک نیتی کا مظاہرہ کرے اور ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کردے تو مستقبل میں ایران اورامریکا کے تعلقات میں تبدیلی کا امکان موجود ہے۔
صدرروحانی نے اس کے ساتھ ہی کہا کہ اہم یہ کہ ہم کس راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ایٹمی سمجھوتہ رویوں اورپالیسیوں میں تبدیلی کے عمل کو پرکھنے کا مناسب موقع ہے، لیکن تبدیلی کے تعلق سے رائے کے اظہارکو آئندہ پرموکول کرنے کی ضرورت ہے۔ جیساکہ صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ اب تک جن امورپراتفاق رائے ہوچکا ہے اوران پرعمل درامد نہيں ہوسکا ہے، ان کو عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے۔