شام کے بارے میں قطر کا مخاصمانہ اور زہریلا موقف
Sep ۲۹, ۲۰۱۵ ۱۴:۴۰ Asia/Tehran
بحران شام کی راہ حل اور بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی کی شرط کے بارے میں مغربی ملکوں کے موقف میں تبدیلی آنے سے بشار اسد کی مخالف عرب حکومتوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔
قطر کے حکام مغربی حکومتوں کے شام کے بارے میں بدلتے ہوئے موقف کو دیکھتے ہوئے شام کے بارے میں زہریلا پروپیگنڈا اور اس کے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے لوگوں کو اس حقیقت سے بےخبر رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام کا بحران مغرب اور قطر سمیت بعض عرب حکومتوں کی مداخلت اور فتنہ انگیزی کا نتیجہ ہے۔اس سلسلے میں امیر قطر شیخ تمیم بن حمد آل ثانی نے بحران شام میں اپنے ملک کی مداخلت کی طرف اشارہ کیے بغیر شامی حکومت کو اس بحران کا ذمہ دار قرار دیا اور کہا کہ اس بحران کے علاقے اور دنیا پر اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
امیر قطر کا یہ بیان علاقے میں دہشت گردی کے پھیلنے اور قطر سمیت دہشت گردوں کی حامی حکومتوں تک اس کا دائرہ پھیلنے پر دوحہ کی تشویش کی عکاسی کرتا ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب قطر کے وزیر خارجہ خالد بن محمد العطیہ نے بھی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف جنگ کے لیے قطر، روس کے ساتھ اتفاق رائے رکھتا ہے، کہا ہے کہ اس اقدام سے شام کے بحران کی اصلی وجہ ختم نہیں ہو سکتی ہے کہ جو بشار اسد ہیں۔
قطر کے وزیر خارجہ نے اپنے بیان میں علاقے میں دہشت گرد گروہوں کے خطرات کو معمولی قرار دیتے ہوئے کہا کہ شام کے عوام کا مسئلہ داعش نہیں بلکہ شام کی حکومت ہے۔ قطر کے حکام یہ دعوے ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں کہ جب قطر کا شمار ان ملکوں میں ہوتا ہے کہ جو امریکہ کی سرکردگی میں داعش کے خلاف نام نہاد بین الاقوامی اتحاد میں شامل ہے۔ اگرچہ خلیج فارس کے تمام عرب ممالک بشار اسد کے مخالف ہیں لیکن قطر پر ہمیشہ اس بات پر تنقید کی گئی کہ وہ ایک عرصے سے شام سمیت پورے علاقے میں دہشت گرد گروہوں کی مدد و حمایت کے لیے اپنے تیل اور گیس کی دولت کا ایک بڑا حصہ انھیں فراہم کر رہا ہے۔
قطر نے سعودی عرب، ترکی، اسرائیل اور امریکہ کے تعاون سے مارچ دو ہزار گیارہ سے شام میں بشار اسد کی قانونی حکومت کو گرانے کے لیے سازشوں اور کوششوں کا آغاز کیا۔ قطر اور سعودی عرب دہشت گردوں کا راستہ ہموار کرنے والے ہیں اور شام میں دہشت گردوں کو منظم اور مسلح کرنے میں اصلی کردار ادا کر رہے ہیں۔
قطر کی خارجہ پالیسی میں حالیہ برسوں کے دوران خاص طور پر دو ہزار گیارہ میں اچانک غیرمنطقی اور غیرمعقول تبدیلی آئی اور اس نے علاقے میں تخریبی کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ قطر نے لیبیا کے داخلی بحران میں کھل کر مداخلت کی اور شام میں بشار اسد کی حکومت کے خلاف بھی سازشیں اور اقدامات کیے اور اس سلسلے میں خبروں کو کنٹرول کرنے اور پروپیگنڈے کے لیے نہ صرف میڈیا پر سرمایہ کاری کی بلکہ دہشت گردوں کی مالی و فوجی حمایت کو بھی اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں شامل کیا اور بین الاقوامی اداروں میں بھی شام کی قانونی حکومت کے خلاف ریشہ دوانیاں کیں۔
قطر نے عراق میں بھی مغرب کی فتنہ انگیز پالیسیوں کی کھل کر حمایت کی اور مجموعی طور پر مغرب خاص طور پر امریکہ کے مفادات اور پالیسیوں کا ساتھ دیا۔ قطر کے حکام ایسی حالت میں امریکہ کی سرکردگی میں داعش کے خلاف نام نہاد بین الاقوامی اتحاد کے ساتھ تعاون کو، مشرق وسطی میں قطر کے مثبت کردار کے ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں کہ جب خود قطر نے امریکہ، سعودی عرب اور یورپی حکومتوں کے ساتھ مل کر علاقے خصوصا شام اور عراق میں دہشت گرد گروہوں کو وجود میں لانے اور انھیں مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایسے حالات میں کہ جب دہشت گردوں کے حامی بہت سے ممالک اس نتیجے پر پہنچ گئے ہیں کہ شامی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے دہشت گردوں کی حمایت ایک غلط اقدام تھا لیکن قطر کے حکام شام کے بارے میں اپنی غیرسنجیدہ اور بغیر سوچی سمجھی پالیسیوں کو جاری رکھ کر اپنی اس غلطی کو جاری رکھنے پر اصرار کر رہے ہیں اور اپنی خارجہ پالیسی کے حوالے سے تضاد کا شکار ہو رہے ہیں اور یہ مسئلہ قطر کے حکمراں خاندان آل ثانی کی علاقائی اور عالمی میدان میں پریشانی اور تشویش کا مظہر ہے۔