میانمار کے صدر کے خلاف امریکی عدالت میں شکایت
Oct ۰۴, ۲۰۱۵ ۱۷:۳۵ Asia/Tehran
امریکہ میں میانمار کے مسلمانوں کے حقوق کے حامی سرگرم کارکنوں نے مسلمانوں پر میانمار کے صدر تین سین کے ظلم و ستم کے خلاف امریکہ کی مین ہٹن فیڈرل عدالت میں شکایت کی ہے۔
اس شکایت میں میانمار کے صدر ریٹائرڈ جنرل تین سین کے علاوہ ان کی حکومت کے بعض وزراء کا نام بھی لیا گیاہے کہ جو شکایت کنندگان کے بقول ہزاروں روہنگیائی مسلمانوں کے حقوق کی پامالی اوران پر ظلم و ستم میں شریک تھے۔ چار سال کا عرصہ گزرنے کے بعد کسی بھی بیدار ضمیر، انسانی حقوق کے اداروں اور اسلامی تعاون تنظیم خصوصا اقوام متحدہ سے، میانمار کے مسلمانوں پر ہونے والا ظلم و ستم، ان کی عزت و ناموس پر حملہ، ان کے گھروں کو نذر آتش کرنا، ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا اور انھیں آوارہ وطن کرنا، کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مسلمانوں نے کئی بار سول تنظیموں اور اداروں کی سطح پر دنیا کے مختلف ملکوں میں اس ظلم و ستم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی ہے اہم بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایسا راستہ ہموار کریں کہ میانمار کے مسلمان شکایت کر کے اپنے حقوق اور اپنے انسان ہونے کا دفاع کر سکیں۔ میانمار کی بظاہر غیرفوجی نظر آنے والی حکومت کے خلاف سول سوسائٹی کے سرگرم کارکنوں کی جانب سے شکایت دائر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ میانمار میں ایسے فوجیوں کا ظلم و ستم کہ جو اب سفارت کار بن گئے ہیں، ایک ںطریے کا روپ دھار رہا ہے۔ کیونکہ میانمار کے حکام عالمی اداروں سے کسی بھی قسم کا خوف کھائے بغیر اپنی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں تاکہ میانمار کے مسلمانوں کا اقتدار کے ساتھ ساتھ سماجی، سیاسی اور ثقافتی تعلقات میں کوئی حصہ نہ ہو۔ اس بنا پر یہ شکایت اہم بین الاقوامی اداروں کو ایک انتباہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے برحق مسائل اور حقوق کا جائزہ لینے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں اور اپنی ذمہ داریوں پر عمل کریں۔ اس کے علاوہ اس شکایت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان دنیا میں جہاں کہیں بھی ہوں، وہ اپنے دیگر مسلمان بھائیوں کے مسائل اور مشکلات سے غافل اور لاتعلق نہیں رہ سکتے۔ مسلمانوں کی یکجہتی بنیادی طور پر ایسے ہی حالات میں ظاہر ہوتی ہے۔ اس قسم کے اقدامات، عام طور پر سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے ادارے اور عوامی تنظیمیں انجام دیتی ہیں کہ یہ سب اقدامات اپنی زندگی گزارنے کے لیے مسلمانوں کی بےگناہی اور ان کے برحق ہونے کا بیّن ثبوت ہیں۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سترویں اجلاس میں میانمار کے مسلمانوں کے مسائل اور مشکلات کو اٹھانے پر مبنی اسلامی تعاون تنظیم کا حالیہ اقدام اسی نقطہ نظر کی تائید کرتا ہے۔ امریکہ میں میانمار کے مسلمانوں کے حقوق کے حامی سرگرم کارکنوں کا اقدام اور مین ہٹن کی فیڈرل عدالت میں میانمار کے صدر کے خلاف شکایت آگے کی سمت ایک قدم سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ امریکی حکومت کہ جو خود کو دنیا میں انسانی حقوق کا حامی اور محافظ قرار دیتی ہے، میانمار کے آوارہ وطن مسلمانوں کے بارے میں کوئی بنیادی قدم کیوں نہیں اٹھا رہی ہے۔
امریکی اور برطانوی حکام بخوبی اس بات سے آگاہ ہیں کہ میانمار میں مسلمان کئی صدیوں سے زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن ان ملکوں کے حکام کہ جن کے اپنے ملکوں میں جمہوریت کے اصولوں کا خیال نہیں رکھا جاتا ہے، کوشش کر رہے ہیں کہ اپنے ملکوں سے باہر انسانوں کے حقوق کا دفاع کریں۔ جبکہ تجربے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ مغربی دنیا صرف اسی وقت انسانی حقوق کی حامی اور محافظ ہے کہ جب وہ ان کے مفاد خاص طور اقتصادی فائدے میں ہو۔ امریکہ اور مغربی دنیا کی جانب میانمار کے جھکاؤ اور رجحان سے بھی اسی بات کی عکاسی ہوتی ہے۔