صیہونی وزیر اعظم کی فریبی چالیں
مشرقی بیت المقدس اور جولان کی بلندیوں میں تیار ہونے والی مصنوعات پر خاص اسٹیکر لگانا ضروری ہے-
صیہونی وزیر اعظم نے اپنی حکومت کے مسائل سے رائے عامہ کو منحرف کرنے کے لئے ایک نمائشی اقدام میں اعلان کیا ہے کہ امن مذاکرات کے حوالے سے اسرائیل اور یورپی یونین کے سفارتی تعلقات منقطع ہوجائیں گے۔ یورپی یونین کی جانب سے فلسطین کے مقبوضہ علاقوں میں تیار شدہ مصنوعات پر خاص اسٹیکر لگانے کے اقدام کی منظوری کے بعد صیہونی وزیر اعظم نے کہا ہے اسرائیل نے امن مذاکرات کے بارے میں یورپی یونین سے سفارتی تعلقات معطل کردئے ہیں۔ نیتن یاھو نے یورپی یونین کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کو یورپی یونین سے جو اس کا بڑا تجارتی حلیف ہے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ یورپی منڈیوں میں اسرائیل کی یہودی بستیوں میں تیار کی گئی مصنوعات پر مخصوص اسٹیکر لگانے کی منظوری دے گی۔
صیہونی حکومت کے احتجاج اور امریکہ کی جانب سے اس اقدام پر تشویش کے اظہار کے باوجود بھی یورپی یونین نے گیارہ نومبر کو اعلان کیا تھا کہ اسرائیل کی غیر قانونی یہودی کالونیوں میں تیار شدہ مصنوعات پر مخصوص اسٹیکر لگانے کی منظوری سے یورپ میں ان مصنوعات کے بائیکاٹ کی زمین ہموار ہوچکی ہے۔ یورپی یونین کے اس فیصلے کے مطابق غرب اردن، مشرقی بیت المقدس اور جولان کی بلندیوں میں تیار ہونے والی مصنوعات پر خاص اسٹیکر لگانا ضروری ہے۔ ان علاقوں پر صیہونی حکومت نے انیس سو سڑسٹھ کی چھے روزہ جنگ میں قبضہ کیا تھا۔ یورپی یونین کے اس فیصلے کےبعد یورپ کی سب سے بڑی چین اسٹور نے صیہونی کالونیوں میں بننے والے ساز وسامان فروخت کرنا بند کردیا جس پر صیہونی حکام نے اعتراض بھی کیا لیکن ساتھ ساتھ اس سے فلسطینی عوام خوش بھی ہوئے۔
یورپی یونین نے ہمیشہ انیس سو سڑسٹھ کی سرحدوں سے باہر صیہونی حکومت کے ہاتھوں یہودی کالونیاں بنائے جانے کی مذمت کی ہے اور ان سرزمینوں کو صیہونی حکومت کے زیر قبضہ علاقے قرار دیا ہے۔ یورپی یونین کی جانب سے مقبوضہ علاقوں میں تیار کی گئی مصنوعات پر اسٹیکر لگانے کے فیصلے کے بعد صیہونی وزیر اعظم کی جانب سے ساز باز مذاکرت میں شریک یورپی حلیفوں سے مذاکرات معطل کرنا ایسے حالات میں سامنے آرہا ہے کہ یہ مذاکرت فلسطینی علاقوں میں یہودی کالونیوں کی تعمیر کی بنا پر تقریبا دو برسوں سے معطل ہیں۔ اسی بنا پر صیہونی وزیر اعظم کا اقدام بے وقعت اور نمائیشی ہے جس کا مقصد داخلی اور خارجی سطح پر صیہونی حکومت کی مشکلات سے رائے عامہ کو منحرف کرنا خاص طور سے داخلی سطح پر انتہا پسند گروہوں کے سامنے اپنی طاقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔
دراصل رائے عامہ کے دباؤ کے تحت صیہونی حکومت کی توسیع پسندی اور مجرمانہ کاروائیوں پر عالمی سطح بالخصوص یورپی ملکوں کے بڑھتے ہوئے احتجاج اس بات کا پتہ دیتے ہیں کہ عالمی سطح پر صیہونی حکومت کی مذمت کی جارہی ہے اور عالمی برادری مختلف طریقوں سے صیہونی حکومت سے اپنی نفرت کا اظہار کررہی ہے۔ اس طرح کے واقعات سےپتہ چلتا ہے کہ صیہونی حکومت عالمی سطح پر روز بروز گوشہ گیر ہوتی جا رہی ہے۔