پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کا دورہ سری لنکا
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف سری لنکا کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کے مقصد سے تین روزہ دورے پر کولمبو گئے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے وزیراعظم کے ہمراہ معاون خصوصی طارق فاطمی، قومی سلامتی کے مشیر ناصر جنجوعہ، وزیر تجارت خرم دستگیر، وزیرد فاعی پیداوار رانا تنویر بھی سری لنکا گئے ہیں۔ وزیراعظم نوازشریف سری لنکا کے صدارتی محل پہنچے تو سری لنکا کے صدر میتھری پالا سری سینا نے ان کا استقبال کیا۔ کولمبو کے صدارتی محل میں وزیراعظم نوازشریف اورسری لنکن صدرمیتھری پالا سری سینا کے درمیان وفود کی سطح پر ملاقات ہوئی۔ جس میں خطے کی صورت حال، باہمی دلچپسی کے امور اور مختلف شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کے فروغ پربات چیت ہوئی۔ ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلیم اور صحت کے مختلف شعبوں میں تعاون سے متعلق آٹھ نئے معاہدوں اور دیگر یاداشتوں پر دستخط کئے گئے۔ طے پائے گئے معاہدوں میں دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کا معاہدہ بھی شامل ہے۔
پاکستان اور سری لنکا جنوبی ایشیا کی علاقائی تعاون کی تنظیم سارک کے دو اہم رکن ملک ہیں اور نواز شریف کا دورہ سری لنکا دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے اور اس تنظیم کو فعال بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ نواز شریف نے ایک ایسے وقت میں سری لنکا کا دورہ کیا ہے کہ جب یہ ملک کئی برسوں کی نسلی جھڑپوں کے بعد سیاسی و سیکورٹی لحاظ سے ایک بہتر پوزیشن میں ہے اور کولمبو حکومت کی پالیسی بھی ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے پر استوار ہے۔
اس بنا پر سیاسی مبصرین کے خیال میں دونوں ملکوں کے لیے ایک مناسب موقع فراہم ہوا ہے کہ وہ دو طرفہ اور علاقائی تعاون کو فروغ دینے کے لیے قدم اٹھائیں۔ ان مبصرین کے خیال میں پاکستان کے دورہ سری لنکا سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام آباد کی بھی بحر ہند میں واقع اس ملک کی پوزیشن پر توجہ ہے۔
سری لنکا کی حکومت ملک میں نسلی جھڑپوں کے خاتمے کے بعد تعمیرنو کے پروگرام پر عمل کرنا چاہتی ہے اور اس چیز نے چین اور ہندوستان اور اسی طرح پاکستان سمیت علاقے کے اہم ممالک کے لیے رقابت اور مقابلہ آرائی کا مناسب میدان فراہم کر دیا ہے۔ بحرالکاہل میں سری لنکا کی اسٹریٹجک پوزیشن کے پیش نظر پاکستان نے بھی اپنے ایٹمی حریف ہندوستان سے پیچھے نہ رہ جانے کے لیے سری لنکا میں موجودگی کے سلسلے میں اہم قدم اٹھایا ہے۔
نئی دہلی کے تحفظات خاص طور پر سری لنکا کی فوجی مدد کے سلسلے میں تحفظات کے پیش نظر پاکستان اور چین سری لنکا کو فوجی مدد فراہم کرنے کے لیے مناسب حالات کے حامل ہیں۔ اس بنا پر ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کے دورہ سری لنکا کا ایک ہدف و مقصد دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے تناظر میں سیاسی و سیکورٹی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ سری لنکا کی حکومت بھی ہر اس عمل اور اقدام کا خیرمقدم کرتی ہے کہ جو اس ملک کے سیاسی و سیکورٹی ثبات و استحکام میں مدد دے۔ سری لنکا کی حکومت کو امید ہے کہ سارک تنظیم کے فعال ہونے سے وہ پاکستان اور ہندوستان سمیت علاقے کے ملکوں کے وسائل و امکانات اور توانائیوں سے استفادہ کر سکے گی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ سارک تنظیم کی فعالیت اور سرگرمیاں گزشتہ تین عشروں کے دوران ہمیشہ اسلام آباد اور نئی دہلی کی کشیدگیوں سے متاثر رہی ہیں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ کولمبو حکومت کو اس بات پر تشویش ہے کہ کہیں مختلف میدانوں میں ہندوستان اور پاکستان کی محاذ آرائی کا دائرہ سری لنکا تک نہ پھیل جائے۔
سری لنکا کی حکومت نے عمل میں دکھا دیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ تعاون کو فروغ دینے میں دلچسپی رکھتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ کولمبو حکومت نے اپنی بعض بندرگاہوں کا کنٹرول چینی حکومت کے حوالے کر دیا ہے۔ ان حالات میں پاکستان کے نقطہ نظر سے سری لنکا میں زیادہ موجودگی کے لیے علاقائی ملکوں کی رقابت کے سلسلے میں یہ ملک مناسب حالات اور گنجائش کا حامل ہے۔