Jan ۰۵, ۲۰۱۶ ۱۷:۵۵ Asia/Tehran
  • امریکہ میں اسلحہ کنٹرول کے مسئلے پر قانونی جنگ

امریکہ میں اسلحہ کنٹرول کا مسئلہ ایک بار پھر اس ملک میں سیاسی و قانونی جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔

امریکی صدر باراک اوباما نے اس ملک کے اٹارنی جنرل لورتا لینج سے ملاقات کے بعد اس بات پر زور دیا کہ وہ اپنے صدارتی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے اسلحے پر کنٹرول میں اضافہ کرنے کے لیے احکامات جاری کریں گے۔ باراک اوباما نے مزید کہا کہ ان اقدامات سے ملک میں تمام تشدد آمیز جرائم تو ختم نہیں ہوں گے اور نہ ہی تمام اندھے قتل رک جائیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے امید ظاہر کی کہ اسلحہ پر کنٹرول میں اضافے سے امریکہ میں تشدد میں کمی آئے گی۔

یہ ایسے وقت میں ہے کہ جب امریکی ایوان نمائندگان کے ریپبلکن سربراہ نے اسلحہ ساتھ لے کر چلنے پر پابندی لگانے کے لیے امریکی صدر کی کوشش کو غیرقانونی قرار دیا۔ پال رایان نے کہا کہ اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کے قوانین میں تبدیلی کے لیے امریکی صدر کا اپنے خصوصی اختیارات کو استعمال کرنا امریکی آئین کے منافی ہے۔ امریکی آئین کے آرٹیکل دو میں تمام امریکی شہریوں کو آزادانہ طور پر اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کی ضمانت دی گئی ہے اور اب امریکی آئین کی تدوین کے دو سو تیس سال بعد اس ملک میں انسانوں کو قتل کرنے میں آتشیں اسلحے کا بےدریغ استعمال اس ملک میں ایک بڑی سیکورٹی اور سماجی مشکل میں تبدیل ہو گیا ہے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق امریکہ میں ہر سال فائرنگ کے واقعات میں تیس ہزار افراد مارے جاتے ہیں۔ یہ مسئلہ اس وقت بہت گمبھیر ہو جاتا ہے کہ جب امریکہ میں نفسیاتی مریض اورعادی مجرم وغیرہ بغیر کسی وجہ اور دشمنی کے بےگناہ انسانوں کو فائرنگ کر کے قتل کر دیتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران امریکہ میں کئی مرتبہ یونیورسٹیوں۔ اسکولوں، سینما گھروں، شاپنگ مالز حتی فوج کے اڈوں میں اندھا دھند فائرنگ کر کے بےگناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس دوران امریکہ میں ڈیموکریٹک پارٹی اور خود صدر باراک اوباما کی رہنمائی میں لبرل دھڑا ہلکی مشین گنوں اور زیادہ گولیوں والی میگزینوں سمیت بعض ہتھیاروں کی فروخت پر زیادہ پابندیاں لگوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ البتہ یہ بات اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کی آزادی کے اصول کے منافی نہیں ہے بلکہ اس میں اس پر زور دیا گیا ہے کہ بعض ہتھیاروں کی فروخت کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کا لائسنس حاصل کرنے کے لیے افراد کی صلاحیت بہتر شکل میں واضح ہو کر سامنے آنی چاہیے۔

ان حالات میں امریکہ میں کنزرویٹو دھڑا جس میں تقریبا تمام ریپبلکنز اور ڈیموکریٹس کا ایک گروپ شامل ہے، اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسلحہ ساتھ لے کر چلنے پر زیادہ پابندیاں لگانا امریکی آئین کے آرٹیکل دو کے خلاف ہے۔ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ امریکہ میں اسلحہ ساتھ لے کر چلنے کے بارے میں اصول و قوانین کا جائزہ لینے کا اختیار کانگرس کو حاصل ہے نہ کہ امریکی صدر کو۔ البتہ حالیہ برسوں کے دوران ریپبلکنز نے کانگرس میں اکثریت حاصل کر کے اسلحہ کے قوانین میں تبدیلی کرنے کی اجازت نہیں دی ہے۔

اسی بنا پر صدر باراک اوباما چاہتے ہیں کہ آئندہ سال جنوری میں وائٹ ہاؤس چھوڑنے سے قبل اس سلسلے میں انتظامی احکامات جاری کرنے کے لیے صدر کے خصوصی اختیارات استعمال کریں یہ وہ اقدام ہے کہ جسے ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے امریکی ایوان نمائندگان کے اسپیکر امریکی آئین کے خلاف قرار دیتے ہیں۔ البتہ امریکی صدور نے کئی بار انتظامی احکامات جاری کیے ہیں لیکن ان احکامات کی مدت صرف ایک سال ہوتی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ باراک اوباما کا دور صدارت ختم ہوتے ہی ان احکامات کی مدت بھی ختم ہو جائے گی۔

ٹیگس