داعش کے خلاف کارروائی کے بارے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی تضادات کا مجموعہ
امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے بدھ کے روز اس ملک کی نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے امریکہ کی خارجہ پالیسی سے متعلق مسائل کے بارے میں گفتگو کی ہے۔
انھوں نے کہا کہ موجودہ پیچیدہ حالات میں ماضی کی مانند امریکہ کی قیادت کی ضرورت ہے اور امریکہ بھی رضا و رغبت کے ساتھ اس کو قبول کرتا ہے۔ ان کے بقول اسی بنا پر امریکہ پوری تاریخ کے کسی بھی دور سے زیادہ دنیا کے زیادہ علاقوں میں موجود ہو گا اور زیادہ شراکت رکھے گا۔
جان کیری کا یہ کہنا کہ امریکہ بدستور دنیا میں اپنی قیادت کے کردار کو جاری رکھنے کا ارادہ رکھتا ہے، اس امر کی نشان دہی کرتا ہے کہ امریکہ کی اقتصادی طاقت اور بجٹ میں کمی کے باوجود بھی دنیا کے مختلف علاقوں خاص طور پر مشرق وسطی میں واشنگٹن کے مداخلت پسندانہ اقدامات کی توقع رکھنی چاہیے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اپنی تقریر میں یہ بات بیان کرتے ہوئے کہ بحران شام کا سیاسی حل کے سوا کوئی اور حل نہیں ہے، مزید کہا کہ داعش کو کمزور کرنا اور اسے شکست دینا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی اولین اسٹریٹجک ترجیح ہے۔ انھوں نے عراق کے صوبہ تکریت کی آزادی میں مدد اور عراق اور شام خصوصا موصل اور رقہ میں داعش کے خلاف موثر اقدامات سمیت داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کے بعض اقدامات کو گنواتے ہوئے دعوی کیا کہ امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے تعاون سے داعش کے مالی ذرائع کو ختم کرنے اور ان کی تیل کی تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کی۔ آخر میں انھوں نے دعوی کیا کہ امریکہ نے دہشت گردوں کے پروپیگنڈے کو روک دیا اور ان کے مالی ذرائع کے راستوں کو بند کر دیا ہے۔
امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر نے بھی بدھ کے روز کہا ہے کہ امریکہ کی اسپیشل فورس کے دو سو فوجی داعش کے ساتھ جنگ میں عراقی فوجیوں کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے عراق گئے ہیں۔ عراق اور شام میں داعش کے خلاف بین الاقوامی اتحاد کی کامیابیوں کے بارے میں جان کیری کے دعوے زمینی حقائق سے کچھ زیادہ مطابقت نہیں رکھتے ہیں۔ جیسا کہ ریپبلکن پارٹی کا یہ خیال ہے کہ امریکی حکومت کی داعش کے خلاف اسٹریٹیجی ایک ناکافی اور نقائص سے بھرپور اسٹریٹیجی ہے۔ امریکہ نے جان کیری کے اس دعوے کے باوجود کہ انھوں نے شام کے بارے میں روس سمیت دوسرے ملکوں کے ساتھ زیادہ تعاون کا راستہ ہموار کیا ہے، عملی طور پر اس سلسلے میں کوئی کام انجام نہیں دیا ہے۔
اگست دو ہزار پندرہ کہ جب سے بین الاقوامی اتحاد کا اعلان کیا گیا ہے، سے لے کر اب تک امریکہ کے اقدامات، بحران شام اور داعش کے سلسلے میں امریکہ کی خارجہ پالیسی کے میدان میں تضاد کی عکاسی کرتے ہیں۔ داعش کی جانب سے امریکہ کی ریڈ لائن کو عبور کرنے یعنی عراق میں داخلے، موصل اور کئی صوبوں پر قبضے سے قبل امریکہ شام میں اس ملک کی قانونی حکومت کو گرانے کے لیے داعش سمیت شام میں سرگرم دہشت گرد گروہوں کی اچھے دہشت گردوں کے عنوان سے حمایت کر رہا تھا۔
دو ہزار گیارہ سے کہ جب سے بحران شام شروع ہوا، امریکہ نے ترکی، سعودی عرب اور قطر جیسے عرب ممالک کے ساتھ مل کر شام میں مختلف دہشت گرد گروہوں کو قائم کرنے، انھیں منظم کرنے اور مضبوط بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حتی موجودہ دور میں بھی کہ جب امریکہ داعش کا سنجیدہ اور بھرپور مقابلہ کرنے کا دعویدار ہے، اس کے قریبی ترین اتحادی یعنی ترکی کے داعش کے ساتھ وسیع اور گہرے تعلقات ہیں۔ اسی طرح سعودی عرب اور قطر نے بھی شام میں روس کی فوجی مداخلت کے بعد اس اقدام کا مقابلہ کرنے کے لیے جندالشام، احرار الشام اور جبھۃ النصرۃ جیسے دہشت گرد گروہوں کے لیے لاجیسٹک اور فوجی امداد روانہ کی ہے۔
کیا واقعی ان گروہوں کی دہشت گردانہ ماہیت داعش سے مختلف ہے۔ اس کے باوجود امریکہ نے ان گروہوں کے جارحانہ اور مجرمانہ اقدامات پر اپنی آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور وہ سعودی عرب کے ساتھ مل کر شام کے قانونی صدر بشار اسد کی اقتدار سے علیحدگی کا مطالبہ کر رہا ہے اور اسے متحارب فریقوں کے درمیان مذاکرات اور سیاسی طریقے سے بحران شام کے حل کا پیش خیمہ قرار دیتا ہے۔
عراق کے سلسلے میں بھی داعش کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں امریکی امداد محدود اور مشروط رہی ہے اور عملی طور پر اس نے مئی دو ہزار پندرہ میں رمادی شہر پر داعش کے قبضے جیسے مواقع پر لاتعلقی کا اظہار کیا اس کے باوجود کہ اس کی فوجیں ان علاقوں سے بہت قریب تھیں، اس نے داعش کے دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے انھیں استعمال نہیں کیا۔