امریکہ، اسرائیل، سعودی عرب اور داعش بدی کا محور
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ کی سنٹرل انٹلیجنس ایجنسی سی آئی اے اور سعودی عرب نے شام میں بحران شروع کیا تھا۔
امریکی اخبار کے اس اعتراف سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شام کا بحران بیرونی ملکوں کا شروع کیا ہوا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے اتوار کی اشاعت میں اپنی ویب سائٹ پر امریکی اورخلیج فارس کے بعض عرب حکام کے حوالے سے یہ خبریں نشر کی تھیں کہ دوہزار تیرہ میں امریکی صدر باراک اوباما نےسی آئی اے کو ایک خفیہ حکم جاری کیا تھا کہ شام میں بقول ان کے جنگ کرنے والے باغیوں یعنی دہشتگردوں کی مدد کی جائے۔
اخبار نیو یارک ٹائمز نے زور دیا ہے کہ سی آئی اے کو اچھی طرح معلوم تھا کہ یہ کارروائیاں انجام دینے کے لئے اسے ایک اچھے شریک کا ساتھ حاصل ہے جو ان کارروائیوں کے لئے پیسہ لگانے کو تیار ہے اور ظاہر سی بات ہے سی آئی اے کی مراد سعودی عرب کے علاوہ کسی اور ملک سے نہیں تھی۔ اس اخبار نے لکھا ہے کہ سعودی عرب نے اپنی انٹلجنس کے اس وقت کے سربراہ بندر بن سلطان کی سربراہی میں یہ کارروائیاں شروع کیں۔ بندر بن سلطان نے ہزاروں کلاشنکوف بندوقیں اور دسیوں لاکھ میگزین خریدنے کا آرڈر جاری کردیا تا کہ شام میں دہشتگردوں کو مسلح کیا جاسکے۔ اس سلسلے میں سی آئی اے کے سربراہ نے بھی سعودی عرب کے لئے کرویشیا سے ہتھیاروں کی خریداری کے کئی معاملات کی زمین ہموار کی۔
اخبار نیویارک ٹائمز نے سی آئی اے اور سعودی عرب کی انٹلیجنس کے درمیان وسیع تعاون کے بارے میں لکھا ہے کہ سعودی عرب اور سی آئی اے کا یہ تعاون گذشتہ دہائیوں سے چلے آرہے باہمی تعاون کا ایک چھوٹا سا نمونہ ہے۔
آج کل داعش دہشتگرد گروہ کے خلاف عرب اور مغربی ممالک جو اقدامات انجام دے رہے ہیں وہ ایسے حالات میں ہیں کہ دوہزار گیارہ میں عملی طور سے داعش دہشتگرد گروہ کو بدی کے محور یعنی بعض عرب ملکوں کی جاسوس تنظیموں خاص طور سے سعودی عرب کی نام نہاد جاسوس تنظیم اور سی آئی اے اور صیہونی جاسوس تنظیم موساد نے جنم دیا تھا۔اس وقت جو داعش دہشتگرد گروہ علاقے اور عالمی سطح پر تشدد اور قتل عام کرنے کی خطرناک توانائیوں کا حامل ہے وہی داعش ہے جس کی بنیاد شام میں امریکہ اسرائیل اور سعودی عرب نے مل کر رکھی تھی اور اس کے حامیوں نے اسے ہر طرح کی مالی اور فوجی امداد دی ہے۔
یہ ایسے میں ہے کہ جب تقریبا پانچ برسوں سے شام کے صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے کی سازشیں ہورہی ہیں اور اب داعش دہشتگرد گروہ نے اپنے حامیوں کی نیندیں بھی حرام کردی ہیں اور انہیں دھمکیاں بھی دے رہا ہے۔ دراصل شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے کے لئے داعش کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے لیکن یہ منصوبہ شکست سے دوچار ہوگیا جس کے بعد اب داعش خود اپنے حامیوں کے لئے خطرے میں تبدیل ہوچکا ہے۔
امریکہ اور سعودی عرب کی سربراہی میں عرب اور مغربی محاذ نے مارچ دوہزار گیارہ سے مختلف طریقوں سے صدر بشار اسد کو اقتدار سے ہٹانے کی کوششیں کی لیکن ان سازشوں کو پانچ برس کا عرصہ گذرنے کے باوجود بھی اسے عالمی سطح پر دہشتگردی کا خطرہ ہی نصیب ہوا ہے۔ بشار اسد کی حکومت کو گرانے کے لئے دہشتگردی کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنا شام میں مختلف دہشتگرد گروہوں کےمعرض وجود میں آنے کا سبب بنا ہے ۔ ان گروہوں بالخصوص دہشتگرد گروہ داعش نے بدامنی کا دائرہ شام سے آگے بڑھا کر مغربی ملکوں کی سرحد تک پہنچا دیا ہے اور عالمی سطح پر بدامنی کی لہر پیدا کردی ہے