میانمار کے صدر کی نئی حکومت کو ہدایات
میانمار کے صدر تھین سین نے حالیہ ایک برس کے دوران ملک میں رونما ہونے والی مثبت تبدیلیوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں اقتدار کی منتقلی کے سلسلے میں حاصل ہونے والی کامیابی قابل تحسین ہے۔ میانمار کے صدر نے اپنے ملک کی سیاسی جماعتوں سے بھی اپیل کی کہ وہ قومی مفادات کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں۔
تھین سین کے بیانات میں جو چیز اہم نظر آتی ہے وہ آنگ سان سوچی کی قیادت میں نئی حکومت کی تشکیل میں مدد دینے پر ان کی تاکید ہے۔ میانمار کے صدر کے بیانات ایک طرح سے آنگ سان سوچی کے لئے ان ہدایات کے حامل ہیں کہ نئی حکومت کو قومی مفادات کو اپنی کوششوں کا مرکز قرار دینا چاہئے اور اس کے ساتھ ساتھ اقتدار میں شریک دوسری جماعتیں بھی نئی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کی پابند ہیں۔ تھین سین کے بیانات میں ایک اور اہم نکتہ یہ تھا کہ انہوں نے نئی حکومت کے ان امور پر تنقید کا دروازہ کھول دیا ہے جن کے سلسلے میں اس کی کارکردگی ناقص ہوگی۔
آنگ سان سوچی کی سیاسی جماعت نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی (این ایل ڈی) کی حکومت کے کام کے آغاز میں اب زیادہ مدت باقی نہیں رہ گئی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ میانمار کے صدر نے پہل کرتے ہوئے نئی حکومت کو ہدایات دے کر اپنے ملک کی رائے عامہ کے سامنے اپنی شخصیت بہتر بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ میانمار کے صدر کا ایک اور مقصد یہ ظاہر کرنا بھی ہے کہ وہ جمہوریت کے حامی ہیں اور شہری حقوق اور آزادیوں کو اہمیت دیتے ہیں۔ میانمار کے صدر کے اس اقدام کے سلسلے میں مثبت رد عمل کا سامنے آنا ایک فطری بات ہے
لیکن حالیہ برسوں کے دوران میانمار میں جو چیز رونما ہوئی وہ ایک تاریخی اور اجتماعی ضرورت تھی اور اس ملک کے فوجی اس سے زیادہ معاشرے کی سیاسی اور اجتماعی لہروں کا مقابلے کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ آنگ سان سوچی جنرل آنگ سان کی بیٹی اور میانمار کی معروف شخصیت ہیں اور انہوں نے تقریبا تین عشروں تک فوجی حکومت کی اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا۔ آنگ سان سوچی نے اپنی جدو جہد کے تمام برسوں کے دوران انسانی ، شہری اور سیاسی حقوق پر اپنی ساری توجہ مرکوز کئے رکھی تھی لیکن چونکہ آنگ سان سوچی اور ان کی پارٹی کی سرگرمیاں فوجیوں کے لئے قابل برداشت نہیں تھیں اس لئے آنگ سان سوچی کے پاس میانمار میں قومی آشتی اور جمہوریت کی بحالی کی قیمت ادا کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ بہرحال حالیہ برسوں کے دوران میانمار میں جو کچھ رونما ہوا اور جو چیز اپوزیشن لیڈر کے طور پر آنگ سان سوچی کی کامیابی پر منتج ہوئی وہ حریت پسندانہ زاویۂ نگاہ اور ناگزیر سیاسی اصلاحات سے عبارت تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ آنگ سان سوچی نے ان برسوں کے دوران خصوصا سات نومبر سنہ دو ہزار پندرہ کے پارلیمانی انتخابات کے بعد نہ صرف جمہوریت کی برقراری کے سلسلے میں واضح موقف اختیار نہیں کیا بلکہ بعض مواقع پر تو انہوں نے اپنے آپ کو امتیازی رویے اور ایک طرح کے سیاسی گھٹن کے ماحول کا حامی ظاہر کیا۔ کئی ملین کی آبادی پر مشتمل روہنگیا مسلمان قوم کی ابتر صورتحال سے آنگ سان سوچی کی بے اعتنائی سے اسی زاویہ نگاہ کی تصدیق ہوتی ہے۔ آنگ سان سوچی نے حتی صدارتی امیدوار کے طور پر بھی کئی لاکھ مظلوم اور بے گھر روہنگیا مسلمانوں کا ذکر تک نہیں کیا۔ اس کے علاوہ آنگ سان سوچی نے واضح طور پر موقف اختیار کرتے ہوئے تشدد پسند بوڈھسٹوں کے اقدام کی حمایت کی۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب جنرلوں کی حکمرانی کے زمانے میں اپنی بیس سالہ نظربندی کے دوران وہ نسل، مذہب اور قوم کو بالائے طاق رکھ کر طویل جدو جہد کے دوران تشدد کی سختی کے ساتھ مذمت کیا کرتی تھیں۔
اب آنگ سان سوچی کی قیادت والی میانمار کی حکومت سے یہ توقع کی جارہی ہے کہ وہ فوجیوں کی حکمرانی کے زمانے کی تمام غیر انسانی پالیسیوں کو کنارے لگا دیں گی اور برداشت کی سفارت کاری اختیار کر کے ہر طرح کے امتیازی سلوک کے بغیر میانمار کے تمام شہریوں کے ساتھ اچھے رویئے کو اپنے ایجنڈے میں شامل کریں گی۔