Feb ۰۲, ۲۰۱۶ ۱۷:۱۰ Asia/Tehran
  • روم میں دہشتگردی کے خلاف نام نہاد اتحاد

داعش مخالف اتحاد کے تیئیس ملکوں کے وزرا خارجہ اور سینئر سفارتکار منگل کو روم میں جمع ہوئے ہیں تا کہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی مالی اور فوجی امداد کا دائرہ تنگ کرنے کی راہوں کا جائزہ لے سکیں۔

اس نشست میں داعش کے خلاف کوآرڈی نیشن، عراق کے شہر تکریت جیسے علاقوں میں امن قائم کرنا کہ جنہیں داعش کے قبضے سے آزاد کرالیا گیا ہے، اس دہشتگرگروہ کے مالی ذرایع کو بند کرنے کے لئے وسیع تر اور مزید کوششیں کرنا نیز اس گروہ کے زیر قبضہ علاقوں میں دیگر ملکوں کے دہشتگردوں کا داخلہ بند کرنا نیز انٹرنیٹ پر داعش کی وسیع تشہیراتی سرگرمیوں کوبند کرنے جیسے مسائل پر غور کیا جائے گا۔

اس اتحاد میں امریکہ، آسٹریلیا، بلجیم، برطانیہ، کینیڈا، ڈنمارک، مصر، فرانس،جرمنی، عراق، اٹلی، اردن، کویت، نیوزی لینڈ، ہالینڈ، ناروے، قطر، سعودی عرب، اسپین، سویڈن، ترکی، متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں۔ اس اتحاد میں شامل ملکوں کودیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ اس طرح کے اجلاسوں پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کے خلاف کوئی موثراور خاطر خواہ اقدامات انجام دے سکیں گے۔ داعش کے خلاف اتحاد میں بعض ممالک تو ایسے ہیں جو اس دہشتگرد گروہ کی مکمل سرپرستی کا کردار ادا کررہے ہیں اور اسکی فوجی اور مالی حمایت کررہے ہیں۔ ان ممالک میں ترکی، سعودی عرب، قطر، اردن اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں اور جنہوں نے شام کی حکومت کو گرانے کی غرض سے اس گروہ کو مضبوط کیا تھا بلکہ عراق میں اپنے اھداف کو آگے بڑھانے کے لئے عراق میں اسکی مدد کی ہے۔ ترکی بھی اس وقت وہابی تکفیری افراد کے داعش کی صفوں میں شامل ہونے کے لئے شام پہنچنے کا کوریڈور بنا ہوا ہے یہاں تک کہ ان دہشتگردوں کے تربیتی کیمپ بھی ترکی میں موجود ہیں۔ ایسے حالات میں کس طرح اس اتحاد سے امید رکھی جاسکتی ہے کہ وہ داعش کے خلاف اقدامات کرے گا۔ سعودی عرب اور ترکی شام کے امن مذاکرات میں ایسے گروہوں کو شریک کرنے کے درپے ہیں جنہوں نے پانچ برسوں سے شام میں بحران پھیلا رکھا ہے اور عام شہریوں کے خلاف کسی بھی طرح کی مجرمانہ اور دہشتگردانہ کاروائیوں سے دریغ نہیں کیا ہے۔

واضح رہے امریکہ کی سربراہی میں داعش مخالف اتحاد نے گذشتہ دیڑھ برس میں عراق اور شام میں داعش کے ٹھکانوں پر بے پناہ حملے کئے ہیں لیکن ان حملوں سے تکفیری دہشتگرد گروہ داعش کی فوجی توانائی پر ذرہ برابر بھی اثر نہیں پڑا ہے۔ امریکہ کے بعض سیاسی اور فوجی حکام نے بارہا اعلان کیا ہے کہ داعش کے خلاف جدوجہد کئی برسوں تک جاری رہے گی۔ اس طرح کے غیر موثر فوجی اقدامات اور کمزور سیاسی موقف سے صاف واضح ہے کہ امریکہ اور اس کے یورپی اور علاقائی اتحادیوں میں داعش کے خلاف لڑنے کا سنجیدہ ارادہ ہی نہیں پایا جاتا۔ ایسا لگتا ہےکہ داعش کے خلاف اتحاد کے ممالک کے سیاسی اور فوجی اقدامات زیادہ تر تشہیراتی مقاصد کے حامل ہیں اور ان کا مقصد سعودی عرب اور ترکی جیسے داعش کے علاقائی حامیوں کے ساتھ امریکہ اور یورپی ممالک کے نہایت گہرے تعلقات کا جواز فراہم کرنے کے حوالے سے رائے عامہ کو فریب دینا ہے۔

مشرق وسطی کے مسائل سے آگاہ افراد کا خیال ہے کہ داعش کا مقابلہ کرنا جیسا کہ امریکہ اور یورپ ظاہر کرتے ہیں بہت زیادہ مشکل بھی نہیں ہے بس اتنا ضروری ہے کہ امریکہ اور یورپ سعودی عرب اور ترکی پر یہ دباؤ ڈالیں یہ وہ داعش کی مالی اور فوجی مدد بند کردیں اور شام کے لئے وہابی تکفیریوں کا راستہ بند کردیں تاکہ وہ داعش کی صفوف میں شامل نہ ہوسکیں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہےکہ امریکہ اور یورپی ممالک اس ارادے کے قطعی حامل نہیں ہیں اور ایسی بھی کو‏ئی علامت دیکھنے کو نہیں مل رہی ہے جس سے معلوم ہوتا ہو کہ شام میں ڈھائی لاکھ سے زائد افراد کے مارے جانے اور لاکھوں افراد کے آوارہ وطن ہونے کے بعد بھی وہ داعش کی حمایت سے دستبردار ہونا چاہتے ہوں۔

روم جیسے اجلاس یورپ میں پناہ گزینوں کی آمد کی لہر کے جاری رہنے اور دہشتگردی کے خطرات پر رد عمل ہے، یورپی حکومتیں بخوبی جانتی ہیں کہ پناہ گزینوں کے ریلے کو روکنے اور سیکورٹی بحرانوں کے حل کے لئے تدابیر اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب جب مشرق وسطی کے بحران حل کئے جائیں اور دہشتگرد گروہوں اور انکی مالی حمایت کرنے والوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے۔ لیکن یورپی یونین میں بھی بنیادی طور سے انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے پر توجہ نہیں دی جاتی۔ یورپی ممالک بھی دہشتگردی اور انتہا پسندی کے تعلق سے دوہرے معیارات رکھتے ہیں اور انہیں ہتھکنڈے کے طور پر دیکھتے ہیں۔جب تک یورپی ممالک اور امریکہ کی خارجہ پالیسی پر دہشتگردی کے تعلق سے یہ نظریہ حکمفرما رہے گا ان سے دہشتگردی اور انتہا پسندی کے مقابلے کی کوئی امید نہیں رکھی جاسکتی اور جو بھی نشست اس سلسلے میں منعقد ہوگی اس کے اھداف دہشتگردی اور انتہا پسند کے مقابلے کے علاوہ کچھ بھی ہوسکتے ہیں۔

ٹیگس