Feb ۰۴, ۲۰۱۶ ۱۷:۴۶ Asia/Tehran
  • امریکہ میں اسلامو فوبیا میں اضافہ

امریکہ کے ڈیموکریٹ صدر باراک اوباما بدھ کے روز ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کی مسجد گئے تھے اور انہوں نے اس مسجد کی ٹرسٹ کے عھدیداروں سے ملاقات کرنے کے علاوہ مسجد میں تقریر بھی کی۔

صدر اوباما گرچہ اس سے قبل مصر، انڈونیشیا، اور ترکی کی مسجدوں میں گئے ہیں لیکن بالٹی مور کی مسجد کا دورہ امریکہ کے مسلمانوں سے ان کی پہلی براہ راست ملاقات شمار ہوتی ہے۔

صدر اوباما نے بالٹی مور کی مسجد میں تقریر کرتے ہوئے اسلام کے خلاف بلاجواز سیاسی نعروں کی مذمت کی۔ ان کا اشارہ بظاہر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتخابی سرگرمیوں میں ان کے بیان کی طرف تھا۔ امریکی صدر نے کہا اگر ہم آزادی دین کے بارے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ ایک دین پر حملہ تمام ادیان پر حملہ شمار ہوتا ہے۔انہوں نے دعوی کیا کہ اسلام مخالف نعروں کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکہ کے مسلمانوں کو انگشت شمار افراد کے اقدامات کی وجہ سے قصوروار سمجھا جاتا ہے اور انہیں حملوں کا ھدف قراردیا جاتا ہے۔ اوباما نے کہاکہ امریکہ کے مسلمان سب سے زیادہ قابل احترام اور سب سے زیادہ وطن پرست ہیں۔

اوباما کے بالٹی مور کی مسجد کا دورہ کرنے کے بعد وائٹ ہاوس کے ترجمان جاش ارنسٹ نے مسلمانوں کے خلاف ری پبلیکن پارٹی کے رویے کی مذمت کی۔انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کے بارے میں ری پبلیکن پارٹی کا رویہ بدگمانی پرمبنی اور جمہوریت کے اصولوں کےبرخلاف ہے۔ جاش ارنسٹ نے صدر اوباما کے شہر بالٹی مور کی مسجد کا دورہ کرنے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس دورے سے ان کا ھدف یہ پیغام پہنچانا تھا کہ وہ امریکی مسلمانوں اور دیگر ادیان کی یکساں حمایت کرتے ہیں۔ جاش ارنسٹ نے کہا کہ ری پبلکن پارٹی کے بعض سیاسی رہنماؤں کی پالیسیاں امریکہ میں اصول و اقدار کے کمزور ہونے کا سبب ہیں۔

ایسا لگتا ہے کہ صدر اوباما کا بالٹی مور کی مسجد کا دورہ اور اس مسجد میں ان کی تقریر امریکہ میں اسلام و مسلمین کے خلاف جاری مخاصمانہ اقدامات میں اضافہ ہونے پر رد عمل کے طور پر انجام پایا ہے۔ یاد رہے یورپ اور امریکہ میں حالیہ دہشتگردانہ واقعات کے بعد امریکہ میں اسلام مخالف اقدامات میں نمایان اضافہ ہوا ہے۔ تیرہ نومبر کو پیرس میں دہشتگردانہ واقعات میں ایک سو تیس افراد ہلاک ہوئے تھے جبکہ دو دسمبر دوہزار پندرہ کو کیلی فورنیا کے شہر سن برناردینو میں دہشتگردانہ واقعے میں چودہ افراد مارے گئے تھے۔

ان حملوں کی وجہ سے یورپ اور امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسند حلقوں نے اپنے اھداف کے حصول بالخصوص اسلام مخالف اقدامات کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفسیاتی لحاظ سے دباؤ کا ماحول بنانے کےلئے ان دہشتگردانہ حملوں کا بہانہ بنایا ہے۔ اس درمیان امریکہ کے ری پبلیکن پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار نے مسلمانوں کے خلاف بیانات دے کر امریکی عوام کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی تا کہ ان کی مقبولیت کا گراف اوپر جاسکے۔

ڈونالڈ ٹرمپ کاموقف عملی طور سے انتہا پسندوں کے حق میں رہا اور ان کے اسلام مخالف اقدامات اور مواقف کابہانہ قرار پایا۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے سن برناردینو کے واقعے کے بعد اسلام مخالف بیان دیتے ہوئے امریکہ میں مسلمانوں کے داخلے پر مکمل طرح سے پابندی لگانے کا مطالبہ کیا تھا۔ امریکہ کے ری پبلیکن ممکنہ صدارتی امیدار کے ان بیانات کی عالمی سطح پر مذمت کی گئی۔ البتہ یہ پہلی بار نہیں ہےکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے اسلام ومسلمین کےخلاف بیانات دئے ہیں۔ انہوں نے اس سے قبل بھی مطالبہ کیا تھا کہ مسلمانوں پر بیشتر نگرانی کرنے کےلئے ایک ڈیٹا بینک قائم کیا جائے۔

دراصل سن برناردینو کے واقعے اور ٹرمپ کے اسلامی مخالف بیانات سے امریکہ میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں اور نسل پرستوں کو بہانہ مل گیا اور امریکہ میں مسلمانوں کے مراکز اور خود ان پر حملوں میں تیزی آگئی۔ یہی بات امریکہ اوراسلام تعلقات کونسل نے بھی اپنے ایک بیان میں کہی ہےکہ پیرس اور سن برناردینو میں حملوں کے بعد سے مسلمانوں اور ان کی مسجدوں پر حملوں میں اضافہ ہوا۔ اس کونسل نے ایک رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ مسلمانوں کے خلاف منفی جذبات امریکہ میں سیاسی فضا کا نتیجہ ہیں۔ اس بیان میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی لگانےکے ٹرمپ کے بیان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ٹیگس