مغرب کی دوہری پالیسیوں پر رہبرانقلاب اسلامی کی تنقید
یونان کے وزیر اعظم الیکسیس سیپراس نے پیر کی شام کو رہبرانقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای سے ملاقات کی
اس ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی نے امریکہ کی دوغلی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے دہشتگردی کو ایک متعدی بیماری اور نہایت خطرناک قراردیا۔ آپ نے فرمایا کہ اگر سب مل کر سنجیدگی سے اس کا مقابلہ کریں تو اس پر کنٹرول حاصل کیا جا سکتا ہے۔
رہبرانقلاب اسلامی نے فرمایا کہ افسوس کا مقام ہے کہ بعض ممالک بالواسطہ یابراہ راست طریقے سے دہشتگردگروہوں کی مدد کررہے ہیں۔ رہبرانقلاب اسلامی نے یونان کے وزیر اعظم سے ملاقات میں یورپ میں پائے جانے والے متضاد نظریات اور اقتصادی مفادات کے بارے میں یونانی وزیر اعظم کے بیانات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپ پر یہ اعتراض بھی کیا جاسکتا ہے کہ وہ ماضی کے برخلاف امریکہ کے مقابل اپنا مستقل ارادہ نہیں رکھتا۔ آپ نےفرمایا کہ یورپیوں کو اپنی اس کمزوری کو دور کرنا چاہیے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے یہ بیانات علاقے اور دنیا پر سایہ فگن تشویشناک صورتحال کی یاد دہانی کراتے ہیں۔ یہ صورتحال اس وجہ سے پیش آئی ہے کہ دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کے دعویدار مغربی ممالک اس لعنت سے مقابلہ کرنے کے عزم کے حامل ہیں ہی نہیں کیونکہ وہ اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ اپنی یکطرفہ اور مداخلت پسندانہ پالیسیوں سے علاقے اور دنیا کے دیگر ملکوں کو بحران کا شکار بنادیں۔ البتہ بعض یورپی ممالک تاخیراور بڑی دیر کے بعد اس طرح کی دوغلی پالیسیوں اور مفادات میں تضاد کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔
یورپ دراصل دو نظریات کے بیچ گرفتار ہوچکا ہے۔ ایک طرف یورپی ممالک خود کو دہشتگردی، انتہا پسندی اور تشدد کے مقابل پارہے ہیں اور انہیں ان سے تشویش لاحق ہے تو دوسری طرف امریکہ کے ساتھ بعض سیاسی تحفظات اور اقتصادی وابستگیوں کی وجہ سے حقائق کو نظر انداز کرنے پر مجبور ہیں حالانکہ تشدد اور انتہا پسندی کی آگ تشدد آمیز مغربی تہذیب سے ہی بھڑک رہی ہے۔ اس وقت مغربی ممالک میں تربیت پانے والے جوان داعش کی صفوں میں دیکھے جاسکتے ہیں اور وہ ہر بہانے سے تشدد کے مرتکب ہورہے ہیں لیکن مغرب صرف مشرق وسطی اورعالم اسلام کو تشدد کا ذمہ دار قراردیتا ہے۔ یہ رویہ دراصل حقائق کو تحریف کرنا ہے اور مغرب جب تک حقائق کا انکار کرتا رہے گا تشدد اور دہشتگردی ختم نہیں ہوگی۔
رہبرانقلاب اسلامی کا اس جانب اشارہ اور یہ تنقیدی نظریہ پیش کرنا ہے کہ بعض یورپی ممالک اب بھی امریکہ کے مقابل مستقل ارادے کے حامل نہیں ہیں اور انہیں اپنی اس کمزوری کو دور کرنا چاہیے اسی حقیقت کو بیان کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشتگردی کا سرچشمہ کہیں اور یعنی مغرب بالخصوص امریکہ کی متضاد اور دوہری پالیسیوں میں تلاش کرنا چاہیے۔ یورپی یونین کو اب تک دہشتگردی اور انتہا پسندی سے بے پناہ نقصانات پہنچے ہیں لیکن یہ نقصانات عراق، شام اور افغانستان کو پہنچنے والے نقصانات کا عشر عشیر بھی نہیں ہیں۔
مغرب اور یورپ کو اب اس بات کی فکر ہے کہ کہیں پناہ گزینوں کاریلا ان کی طرف بدستور بڑھتا نہ رہے لیکن انہوں نے اس تشدد کو ختم کرنے کے لئے کوئی موثر اقدام نہیں کیا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف نمائشی اتحادوں کی تشکیل وہ بھی سعودی عرب جیسے ملکوں کے ساتھ کہ جو خود دہشتگردی کا حصہ ہے اور علاقے میں مالی اور فوجی مدد کرکے تکفیری افکار کو فروغ دے رہا ہے کیا عالمی رائے عامہ کو فریب دینے کے علاوہ کسی اور معنی کا حامل ہوسکتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ کیا یورپ مجبور ہے کہ بدستور امریکہ کی متضاد اور دوغلی پالیسوں کا تابع بنا رہے یا اسے ان نقائص کو دور کرنے کی فکر کرنی چاہیے۔ یونان کے وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات میں رہبرانقلاب اسلامی کے بیانات درحقیقت ان ہی نکات کی یاد دہانی کراتے ہیں۔