انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر مبنی یورپی یونین کی پالیسیاں اور تارکین وطن
تارکین وطن کے بحران پر قابو پانے کے سلسلے میں یورپی یونین کی پالیسی کی ناکامی کی وجہ سے ان یورپی ممالک کے درمیان کہ جہاں یہ تارکین وطن جانے کے خواہاں ہیں اور جن ممالک سے گزر کر جاتے ہیں ان کے درمیان خلیج میں اضافہ ہو گیا ہے۔
آسٹریا کے چانسلر ویرنیر فیمین نے یونان کی جانب سے کی جانےوالی تنقید کو نظر انداز کرتے ہوئے بحران تارکین وطن کے بارے میں سخت پالیسیاں اختیار کئے جانے پر تاکید کی ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایتھنز اس بحران میں ٹریول ایجنسی کا سا کردار ادا کر رہا ہے۔ آسٹریا کے چانسلر نے تارکین وطن کے سلسلے میں اپنے ملک کی سخت پالیسی کو ایک طرح سے اپنا دفاع قرار دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ وہ اس پالیسی کے سلسلے میں پسپائی اختیار نہیں کریں گے۔
ویرنیر فیمین نے بالکان کے راستے میں سرحدیں بند کرنے کی بنا پر آسٹریا سے یونان کی شدید سفارتی ناراضگی اور غصے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ یونان کی پالیسی میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ یونان ایک ٹریول ایجنسی کی طرح اقدام انجام دے اور سارے تارکین وطن کو روانہ کردے۔ یونان نے گزشتہ برس گیارہ ہزار کو پناہ دی لیکن ہم نے نوے ہزار افراد کو پناہ دی اور دوبارہ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
یورپ والوں کی سخت پالیسیوں کے باوجود تارکین وطن بڑی تعداد میں یورپ کا رخ کر رہے ہیں۔ لیکن یورپی حکومتوں کو دسیوں ہزار ضرورت مند تارکین وطن کے سلسلے میں اپنی ذمےداری کا کوئی احساس نہیں ہے۔ یورپی یونین تارکین وطن کے سیلاب کو اپنے کنٹرول میں لینے کے درپے ہے۔ اس سلسلے میں جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے چار مہینوں کے دوران دو مرتبہ انقرہ کا دورہ کیا۔ دوسرے یورپی ممالک اور یورپی کمیشن کے حکام نے بھی ترکی کے دورے کئے۔ ترکی کے ساتھ یورپی یونین کی رکنیت کے لئے مذاکرات میں تیزی لانے اور تین ارب یورو کی مدد کے وعدے کئے گئے۔ لیکن ابھی تک یہ وعدے تارکین وطن کے یورپ جانے کے سلسلے میں کمی لانے میں موثر واقع نہیں ہوئے ہیں۔ تارکین وطن کے سلسلے میں اپنائی جانے والی سخت پالیسیوں کی وجہ سے انسانوں کی اسمگلنگ کا بازار گرم ہوا ہے اور یورپ کے غیر قانونی سفر کے اخراجات زیادہ ہو گئے ہیں۔ یورپی یونین کے حکام نے کہا ہے کہ انسانوں کے اسمگلروں نے گزشتہ برس تقریبا چار سے چھ ارب یورو کمائے۔ اس منافع بخش کاروبار کی وجہ سے ہر اسمگلر تمام تر خطرات کا سامنا کرتے ہوئے اس بازار میں کود پڑتا ہے۔ یورپی یونین نے حال ہی میں تارکین وطن کی یورپ آمد کو روکنے کے لئے یورو پول کے نام سے ایک خصوصی فورس تشکیل دی ہے۔
یورپی حکومتوں کی جانب سے تارکین وطن کے بحران پر قابو پانے کے لئے انجام دیئے جانے والے تمام تر سیاسی و سیکورٹی اقدامات کے باوجود تارکین وطن کی تعداد میں مطلوبہ حد تک کمی لانے کے سلسلے میں یہ اقدامات موثر واقع نہیں ہوئے ہیں۔ اور یہی مسئلہ تارکین وطن کو اپنے ہاں قبول کرنے والے ممالک اور جن ممالک سے یہ تارکین وطن گزرتے ہیں ان کے درمیان کشیدگی میں شدت کا سبب بن گیا ہے۔ یونان تارکین وطن کے یورپی یونین کے رکن ممالک میں داخلے کا دروازہ ہے۔ بہت سے تارکین وطن جارجیا، کروشیا اور اسلووینیا کی سرحدیں بند ہونے کے بعد مقدونیہ کی جانب سفر کر کے اس غریب ملک سے امیر یورپی ممالک تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یورپی یونین کی جانب سے سختی کئے جانے کی وجہ سے اس وقت دسیوں ہزار تارکین وطن یورپی یونین اور مقدونیہ کی سرحدوں پر انتہائی ابتر صورتحال کا شکار ہیں۔ تارکین وطن کو قبول کرنے کے سلسلے میں یورپی یونین کی ایک راہ حل یہ ہے کہ ان کو یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان تقسیم کیا جائے۔ لیکن یورپی یونین کے بعض رکن ممالک مختلف بہانوں کے ساتھ تارکین وطن کو قبول کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ تارکین وطن کو پناہ دینے کی نوعیت کے بارے میں یورپی یونین کے رکن ممالک کے درمیان کشیدگی جاری رہنے کی وجہ سے تارکین وطن کو انتہائی ابتر صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ ایسی حالت میں ہے کہ جب یورپی یونین نے تکفیری اور دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر کے شام میں بدامنی پھیلانے میں کردار ادا کیا ہے اس لئے اب اس یونین کے رکن ممالک ماضی کی اپنی اس پالیسی اور شام میں دہشت گردوں کا سنجیدہ نہ کرنے کے منفی نتائج کی ذمےداری قبول کرنے سے اپنے آپ کو الگ نہیں رکھ سکتے ہیں اور یہ ذمےداری یورپی یونین کے ہر ایک رکن ملک پر عائد ہوتی ہے۔