فلسطینی عوام کی امداد سے متعلق جاری عالمی کوششیں
غزہ پر مسلسل حملے اور اس علاقے کے جاری محاصرے جیسے اقدامات نے غزہ کی صورت حال کو بہت زیادہ بحرانی بنا دیا ہے۔ غزہ پر صیہونی حکومت کی مسلسل جارحیت، اس علاقے میں المیہ رونما ہونے اور عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کئے جانے کا باعث بنی ہے۔
غاصب صیہونی حکومت کی جانب سے یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جس کا اعتراف کرتے ہوئے امن کے سرگرم عمل اراکین نے فلسطینیوں کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے جارحانہ اقدامات کے نتائج پر خبردار بھی کیا ہے اور وہ غزہ پہنچ کر اس علاقے کے محصور عوام سے اپنی یکجہتی کا اظہار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ غزہ کے عوام کی امداد سے متعلق عالمی کوششیں کافی تیز ہوگئی ہیں اور غزہ کا محاصرہ توڑنے اور اس علاقے کے عوام کے مسائل حل کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ غزہ کے عوام کی امداد کے سلسلے میں عمل میں لایا جانے والا تازہ اقدام، امن پسندوں کے ذریعے اس علاقے کے عوام کے لئے بین الاقوامی امداد کے حامل ایک بحری جہاز کی غزہ روانگی ہے۔ آزادی کے بحری جہاز نامی اتحاد، ایف سی سی اور غزہ کے محاصرے سے متعلق بین الاقوامی کمیٹی، آئی سی بی ایس جی، نے غزہ کے سواحل کی جانب ایک اور بحری جہاز روانہ کئے جانے کی خبر دی ہے۔
امن پسندوں کے قافلے کے کوآرڈینیٹر عصام یوسف نے ایک بیان میں کہا ہے کہ غزہ کے لئے بین الاقوامی بحری جہاز روانہ کئے جانے کا مقصد، انسانی حقوق کے اداروں اور سرگرم عمل بین الاقوامی کارکنوں کی حمایت کے ساتھ ساتھ، فلسطینی قوم کو امید کا پیغام پہنچانا اور اس بات کو منتقل کرنا ہے کہ فلسطینی قوم کے مسائل و مشکلات کے مقابلے میں عالمی برادری کی خاموشی ناقابل برداشت ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف غاصب صیہونی حکومت کے غیر انسانی اقدامات، فلسطینیوں پر صرف وحشیانہ حملوں تک محدود نہیں ہیں اور یہ غاصب حکومت، مختلف طریقوں منجملہ فلسطینی علاقوں خاص طور سے غزہ کا محاصرہ کر کے فلسطینیوں کا مزید قتل عام کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالیہ برسوں کے دوران غزہ کے جاری محاصرے کے نتیجے میں سیکڑوں کی تعداد میں فلسطینی شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ فلسطینیوں کی ایک بڑی تعداد، خاص طور سے بیمار فلسطینی شہری، موت کے دہانے پر کھڑے ہوئے ہیں جس سے غزہ کے علاقے میں، اس المیے کا پتہ چلتا ہے جو غزہ کے عوام کے لئے غاصب صیہونی حکومت نے جنم دیا ہے۔ غزہ کے محاصرے پر جاری ردعمل، جو صیہونی حکومت کے خلاف اپنائے جانے والے مواقف، دنیا کے مختلف ملکوں منجملہ یورپی ملکوں میں صیہونی مخالف مظاہروں کے انعقاد اور غزہ کے عوام کے لئے عالمی سطح پر امداد نیز صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کے اعلان کی صورت میں ظاہر کیا جاتا ہے، صیہونی حکومت کے جرائم سے عالمی رائے عامہ کی نفرت و بیزاری کا آئینہ دار ہے۔
یورپی ملکوں کی بیشتر حکومتیں بھی، جو ہمیشہ صیہونی حکومت کی بھرپور حمایت کرتی رہی ہیں، یورپی عوام کے دباؤ پر اپنی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پرمجبور ہوگئی ہیں اور ان حکومتوں نے صیہونی حکومت کی جارحانہ اورغاصبانہ پالیسیوں پر شدید تنقید کی ہے۔ صیہونی حکومت پر ان یورپی حکومتوں کی تنقید سے غاصب صیہونی حکومت کے ساتھ، یورپ کی مفاہمت میں ایک طرح سے تبدیلی کا پتہ چلتا ہے جو ہمیشہ صیہونی حکومت کی بےدریغ حمایت کرتا رہا ہے۔ فلسطین کے مستقبل کے تعّین اور فلسطینی مملکت کی تشکیل جیسے فلسطینیوں کے حقوق کے سلسلے میں، اقوام متحدہ میں ہونے والی ووٹنگ کے دوران بیشتر یورپی ملکوں کی جانب سے فلسطینیوں کی حمایت میں ووٹنگ اوراسی طرح حالیہ برسوں کے دوران اقوام متحدہ میں فلسطین کی پوزیشن بہتر اور مضبوط ہونے سے، یورپی ملکوں کی صرف اسرائیل کی حمایت سے متعلق پالیسیوں میں فلسطینیوں کے حقوق کی حمایت میں تبدیلی آنے کی نشاندہی ہوتی ہے۔
یہ ایسی حالت میں ہے کہ صیہونی حکومت کے خلاف پابندیوں کے اثرات، صرف سیاسی اور اس غاصب حکومت کے الگ تھلگ پڑجانے تک محدود نہیں ہیں بلکہ یہ اثرات اقتصادی پہلوؤں میں بھی کافی نمایاں ہو رہے ہیں۔ اسرائیل کے مسائل کے ماہرین کا کہنا ہے کہ صیہونی حکومت کے بائیکاٹ کے نتیجے میں اس حکومت کو اقتصادی طور پر پہنچنے والے نقصانات کی شرح، آٹھ ارب ڈالر سے زائد تک پہنچ چکی ہے اور یہ اقتصادی نقصان، مغرب سے وابستہ صیہونی حکومت کی معیشت پر ایک کاری ضرب ہے۔