ایران کے خلاف امریکی دشمنی جاری
امریکہ کے صدر نے ایران کے تعلق سے قومی ہنگامی حالت کے قانون میں توسیع کردی ہے۔
وائٹ ہاوس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ باراک اوباما نے ایران کے تعلق سے قومی ہنگامی حالت میں توسیع کرنے کے بعد سنیٹ اور ایوان نمایندگان کو خط بھیج کر اس مسئلے سےآگاہ کیا ہے۔ اس بیان میں جو رواں مہینے کی نویں تاریخ کو جاری کیا گیا ہے آیا ہے کہ ایٹمی معاہدے کےباوجود ایرانی حکومت کے بعض اقدامات علاقے میں امریکہ کے مفادات کے خلاف ہیں اور امریکہ کی قومی سلامتی، خارجہ پالیسی اور معیشت کے لئے غیر معمولی خطرہ شمار ہوتے ہیں۔ اس بیان میں آیا ہےکہ ان ہی وجوہات کی بنا پر ضروری ہے کہ ایران کے تعلق سے اعلان شدہ قومی ہنگامی حالت جاری رہے اور ان خطروں کے رد عمل میں ایران کے خلاف بعض پابندیوں پر بدستور عمل درامد ہو۔
انیس سو ستتر میں کانگریس نے بین الاقوامی ہنگامی اقتصادی اختیارات کا قانون منظور کیا تھا اور اس وقت کے صدر نے اس پر دستخط کئے تھے۔اس قانون کی رو سے امریکی صدر کو اجازت دی گئی ہے کہ امریکہ کی قومی سلامتی کو بیرونی ذرایع سے لاحق غیر معمولی خطروں کی بنا پر اقتصادی لحاظ سے ہنگامی صورتحال کا اعلان کردیں اور اسی لحاظ سے ان ذرایع سے اقتصادی تعلقات تنظیم کریں۔ اس دائرہ کار میں جو اقدامات انجام دئے جاسکتے ہیں وہ، معاملات روک دینا، اثاثوں کو منجمد کردینا اور اگر امریکی سرزمین پر حملہ ہوا ہے تو حملہ آور ملک کے اموال ضبط کرلینے سے عبارت ہیں۔ اس قانون کے سہارے مارچ انیس سو پچانوے میں صدر بل کلنٹن کے زمانے میں ایران کے خلاف ہنگامی پابندیاں لگائی تھیں۔ یہ قانون جیسا کہ اس میں کہا گیا ہے ایک سال بعد خود بخود ختم ہوجاتا ہے مگر یہ کہ اس کی ایک سالہ تاریخ کے ختم ہونے سے نوے دنوں قبل امریکی صدر کانگریس کو اس میں توسیع کی اطلاع دیں۔
وائٹ ہاوس کا یہ اقدام ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی نگاہ میں ایران اس کے لئے ہمیشہ خطرہ بنا رہتا ہے حالانکہ اگر گذشتہ نصف صدی کے دوران ایران کے خلاف امریکہ کی کارکردگی دیکھی جائے تو یہ امریکہ ہے جو ایران کے خلاف ہمیشہ سے خطرہ رہا ہے۔ ایران کے خلاف امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات اور خطرے اسلامی انقلاب کی کامیابی سے برسوں پہلے رہے ہیں۔
انیس سو ترپن میں ایران کی قانونی حکومت کے خلاف امریکہ اور برطانیہ کی سازش سے ہونے والی فوجی بغاوت، ایرانی حکومت کو گرانے کے لئے دہشتگرد گروہوں کی حمایت اور مسلط کردہ جنگ کے دوران صدام کی حمایت اور اسے کیمیاوی ہتھیار استعمال کرنے کی ترغیب دلانا نیز خلیج فارس کے اوپر امریکی جنگی جہاز وینسنس سے ایران کی ایر بس کو مارگرانا جس میں دو سو نوے مسافر سوار تھے امریکہ کے کچھ اقدامات ہیں۔
امریکہ نے مسلط کردہ جنگ کے خاتمے کے بعد بھی اپنے اس رویئے کو جاری رکھا اور ایران کا اقتصادی محاصرہ کرکے اس پر پابندیاں لگا کر نیز اسے ڈرا دھمکاکر مختلف طریقوں سے ایران کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹیں ڈالنے کی کوشش کی۔ ایران کے ایٹمی پروگرام کے خلاف بارہ برسوں تک بے بنیاد پروپگینڈے اور بے اساس دعوے امریکہ کے مخاصمانہ اقدامات کی دوسری کڑی شمار ہوتے ہیں۔ آج بھی یہ بہانے ایران کی میزائلی توانائی پر تشویش ظاہر کرکے جاری رکھے گئے ہیں۔امریکہ اسی رویے کی اساس پر ایران پر دہشتگردی کی حمایت کرنے کا الزام لگاتا ہے جبکہ دنیا جانتی ہےکہ امریکہ نے القاعدہ کو وجود بخشا تھا اور اسے اپنے اھداف حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے لیکن جب یہ گروہ امریکہ کے خلاف خطرہ بن گیا تو اس نے افغانستان پرحملہ کردیا۔ یاد رہے امریکہ نے اپنی سکیورٹی کے تحفظ کے بہانے عراق پر حملہ کیا لیکن اب جبکہ داعش اور سیکڑوں دہشتگرد گروہوں سے علاقے اور دنیا کو خطرات لاحق ہیں امریکہ ان گروہوں کی بدستور حمایت کررہا ہے اور سعودی عرب جیسے ملکوں کی مدد سے ایرانوفوبیا کو ہوا دے رہا ہے۔
ایران کے تعلق سے ہنگامی حالت کے قانون میں توسیع لانا بھی امریکہ کی اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کے سہارے امریکہ، ایران کے خلاف اپنی غیر منطقی اور مخاصمانہ پالیسیوں کا جواز پیش کرتا ہے۔ جو چیز مسلم ہے یہ ہے کہ ان اقدامات کا ھدف روشن ہے اور اس موقع پر امریکی صدر کے دیگر اقدامات صرف ایران کے خلاف ہنگامی حالت کے قانون میں توسیع کاجواز پیش کرنے کے لئے ہیں۔