Mar ۱۴, ۲۰۱۶ ۱۷:۳۶ Asia/Tehran
  • افغانستان میں امن مذاکرات اور مختلف گروہ

افغانستان میں امن مذاکرات اور مختلف گروہ

افغانستان کے صدر اشرف غنی کی جانب سے امن مذاکرات کی دعوت کے بعد حزب اسلامی کے سربراہ حکمت یار نے کابل حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے کہا کہ ان کی پارٹی چاہتی ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو لیکن امریکہ افغانستان میں جنگ کا حامی ہے۔ واضح رہے حکومت کابل نے حزب اسلامی کو امن مذاکرات کی دعوت دی ہے لیکن امریکہ نے اس پارٹی کے دو رہنماوں کے نام اپنی بلیک لسٹ میں شامل کررکھے ہیں اور ان کی گرفتاری کے لئے دسیوں لاکھ ڈالر کا انعام رکھا ہے۔

امریکی وزارت خارجہ نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ حزب اسلامی کے دو رہنما عبداللہ نوبہار اور عبدالصبور امریکہ کی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہیں۔ گلبدین حکمت یار کی پارٹی حکومت افغانستان کی مخالف مسلح پارٹیوں میں سے ایک ہے اور اس پارٹی کو محمد اشرف غنی نے امن مذاکرات میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ سیاسی مبصرین کی نظر میں حکمت یار کا امن مذاکرات میں شریک ہونے پر آمادگی کا اظہار کرنا اس سلسلے میں طالبان کے فیصلے پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ طالبان میں تین گروہ شامل ہیں جو حکمت یار کی حزب اسلامی، حقانی گروہ اور کوئٹہ کونسل کے طالبان ہیں۔ اس بنا پر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ حکمت یار جو افغانستان کے سیاسی میدان میں موجود رہنے کے لئے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں رہتے ہیں اب انہیں حالات کو مناسب تشخیص دیا ہے اور اس کوشش میں ہیں کہ وہ افغان امن مذاکرات میں حکومت کابل سے بھی مراعات لیں اور اپنے بعض رہنماوں کے بارے میں امریکہ سے بھی مراعات لیں جن کو امریکہ نے اپنی بلیک لسٹ میں شامل کررکھا ہے۔ طالبان میں دھڑے بندی اور اس کا ملا اختر منصور اور ملا محمد رسول کے گروہوں میں تقسیم ہوجانے کے بعد حکمت یار اب اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ وہ طالبان سے اپنا راستہ الگ کرکے حکومت افغانستان اور امریکہ سے مراعات حاصل کرسکتے ہیں۔ یاد رہے طالبان کے مختلف دھڑوں کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں اور تازہ جھڑپوں میں ایک سو پچاس افراد مارے گئے ہیں۔ اس امر کے پیش نظر کہ طالبان نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں اپنے حملے تیز کردئے ہیں اور ان حملوں میں بہت سے عام شہری جاں بحق ہوئے ہیں طالبان کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے اسی بنا پر حکمت یار ایک طرح سے طالبان سے اپنا راستہ الگ کرکے عوام کے نزدیک اپنی ساکھ سدھارنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بہرصورت سیاسی مبصرین کی نظر میں چنانچہ طالبان کے تمام مسلح گروہ امن مذاکرات میں شرکت کرنے پر آمادگی ظاہر کردیں تو بلاشک افغانستان کی سیاسی اور سکیورٹی صورتحال پر گہرے اثرات مرتب ہونگے اور یہانتک کہ امریکہ بھی افغانستان سے اپنے فوجی نکالنے پر مجبور ہوجائے گا کیونکہ امریکہ نے سکیورٹی بحرانوں سے مقابلہ کرنے کے بہانے ہی افغانستان میں اپنے فوجی تعینات کررکھے ہیں اور حال میں ان میں اضافہ بھی کیا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اگر افغانستان کے مسلح مخالف گروہ آئین کے دائرے میں سیاسی سرگرمیاں شروع کرتے ہیں اور سیاسی پارٹیوں میں شامل ہوکر پارلیمنٹ کی سیٹوں کے لئے کوشش کرتے ہیں اور اسکے علاوہ اگر صوبوں میں عھدے بھی حاصل کرلیتے ہیں تو اس سے افغانستان میں آنے والی نسل کا مستقبل روشن ہوسکتا ہے۔

ٹیگس