Apr ۰۴, ۲۰۱۶ ۱۸:۰۳ Asia/Tehran
  • یورپ و امریکہ اردوغان سے ناراض

امریکہ اور ترکی کے درمیان مختلف مسائل کے سلسلے میں پائے جانے والے اختلافات نے اب نیا رخ اختیار کرلیا ہے اور اب دونوں ملکوں کے صدر ایک دوسرے پر الزام لگانے لگے ہیں۔


ترک صدر رجب طیب اردوغان نے امریکی صدر اوباما کی تنقیدوں کے جواب میں اوباما پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے ان کی پیٹھ پیچھے ترکی پر الزامات لگائے ہیں۔ صدر اوباما نے دو روز قبل واشنگٹن میں ایٹمی سیکورٹی کانفرنس کے موقع پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ترکی میں آزادی بیان پر لگائی گئی پابندیوں پر افسوس کا اظہار کیاتھا۔ انہوں نے کہا کہ اردوغان جمہوریت کے وعدوں سے اقتدار تک پہنچے ہیں۔ اوباما کے اس بیان پر ترک صدر نے شدید رد عمل دکھایا ہے۔


گذشتہ مہینوں میں ترک صدر کے تعلقات امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں سے کشیدہ ہوگئے ہیں، البتہ یاد رہے ترکی کے ساتھ امریکہ اور یورپ کے قریبی اور اسٹریٹیجک تعلقات ہیں۔ ترکی نیٹو کا رکن اور امریکہ اور بعض با اثر یورپی ممالک جیسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کا فوجی حلیف ہے۔ اس کے باوجود رجب طیب اردوغان نے حالیہ چند برسوں کے دوران ترکی کی داخلی اور خارجہ پالیسیوں میں ایسے فیصلے کئے ہیں جن پر یورپ اور امریکہ میں اعتراضات کئے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر یورپیوں نے یورپ کی طرف شام کے پناہ گزینوں کو بھیجنے کے ترکی کے اقدام پر سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ یورپی ملکوں نے مجبورا انقرہ کو چھ ارب یورو دیئے تاکہ ترکی اپنی سرحدوں پر کنٹرول رکھے اور شام اور عراقی پناہ گزینوں کو روکے۔یورپی عوام کی نظر میں یہ ایک طرح سے تاوان وصول کرنا ہے۔ یہ ایسے عالم میں ہے کہ ترک صدر رجب طیب اردوغان کو رائے عامہ تدریجا شام میں قیام امن کے عمل میں رکاوٹیں ڈالنے اور مشرق وسطی اور یورپ میں بعض دہشتگرد اور انتہا پسند گروہوں کے پس پردہ حامیوں کی حیثیت سے جانا جاتا ہے۔


یہ تنقیدیں امریکہ میں بھی سامنے آئی ہیں، اوباما نے ایک حیرت انگیز اقدام میں ترکی کو، جو مشرق وسطی میں واشنگٹن کا ایک بنیادی اتحادی ہے، میڈیا کے حقوق پامال کرنے کا ذمہ دار قراردیا ہے۔ ترک حکومت نے حالیہ مہینوں میں حکومت پر تنقید کرنے والے میڈیا اور صحافیوں پر شدید ترین دباؤ ڈالا ہے۔ اردوغان اور ان کی پارٹی انصاف و ترقی کے حامی اس بات کا دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح کے ذرائع ابلاغ قومی سیکورٹی کو کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور وہ دہشتگردی کی حمایت کرتے ہیں حالانکہ انقرہ کے اتحادیوں کا کہنا ہےکہ ترک حکومت نے اپنے خلاف ہر طرح کی آواز کو دبانے کے لئے طاقت کے استعمال  کی پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اس وقت یورپی اور امریکی حکام کے ساتھ ترک حکام کی لفظی جنگ سے قطع نظر رائے عامہ اور سیاسی حکام کی سطح پر اپنے اتحادیوں کو مطمئن کرنے میں انقرہ کی ناکامی اس کے لئے ایک بڑے درد سر میں تبدیل ہوچکی ہے۔ ایسے عالم میں جبکہ اردوغان نے داخلی سطح پر پی کے کے گروپ کے خلاف شدید تنقید شروع کررکھی ہے انہیں شام میں بھی پے درپے ناکامیاں نصیب ہوئی ہیں۔ امریکی صدر کی جانب سے ترکی پر لفظی حملے انقرہ کو پہلے سے زیادہ دباؤ میں لاسکتے ہیں۔ بہرحال یہ چیز واضح ہے کہ رجب طیب اردوغان کی خارجہ پالیسیوں کی وجہ سے بالخصوص ان کے صدر بننے کے بعد سے ان کے مخالفین اور ناقدین کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ یہ تنقیدیں کچھ مہینوں سے ترکی کے اندر اور ہمسایہ ملکوں میں سنی جارہی تھیں اور اب واشنگٹن اور یورپ سے بھی سنائی دے رہی ہیں۔


 


ٹیگس