Apr ۰۶, ۲۰۱۶ ۱۹:۱۱ Asia/Tehran
  • افغانستان کی حزب اسلامی غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کی شرط سے دستبردار

افغانستان کی اعلی امن کونسل کے ساتھ مذاکرات کرنے والے حزب اسلامی کے وفد کے سربراہ محمد امین کریم نے کہا ہے کہ اس جماعت کے سربراہ گلبدین حکمتیار ملک میں قیام امن و آشتی کی برقراری کےلئے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے مکمل انخلا کی شرط سے دستبردار ہو گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ افغان عوام کے نزدیک افغانستان کی اعلی امن کونسل کے ساتھ حزب اسلامی کے مذاکرات کی کامیابی اس ملک میں قیام امن کا باعث بنے گی۔

حکمتیار نے اس سے قبل اعلی امن کونسل کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لئے افغانستان سے تمام غیر ملکی فوجیوں کے نکل جانے کو ضروری قرار دیا تھا۔افغانستان کی اعلی کونسل کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لئے اس ملک سے غیر ملکی فوجیوں کے مکمل انخلا پر مبنی پیشگی شرط سے حزب اسلامی کے دستبردار ہونے سے ان مذاکرات کے انعقاد کا راستہ ہموار ہوسکتا ہے۔

حکمتیار کی قیادت والی حزب اسلامی نے حالیہ مہینوں کے دوران بارہا افغانستان کے امن عمل میں شامل ہونے کے رجحان کا اظہار کیا ہے۔ شاید اسی وجہ سے کچھ عرصہ قبل حکمتیار نے ، کہ جو افغان حکومت کے مسلح مخالف شمار ہوتے ہیں، اپنی جماعت کے رہنماؤں پر عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا۔

افغانستان کی حزب اسلامی کے مذاکراتی وفد کے سربراہ نے ایسی حالت میں اس ملک سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کی پیشگی شرط سے دستبردار ہونے کی خبر دی ہے کہ جب افغانستان کی اعلی امن کونسل اور حکمتیار کی حزب اسلامی کے نمائندوں کے درمیان کابل میں مذاکرات کا دوسرا دور کچھ عرصہ قبل ہوا تھا۔ ماہرین نے کہا تھا کہ اس اجلاس میں فریقین میں زیادہ گہرے اختلافات نہیں تھے۔ حزب اسلامی کی جانب سے افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا پر مبنی پیشگی شرط سے دستبردار ہونے کے بعد اب اس جماعت اور اعلی امن کونسل کے درمیان مذاکرات کی راہ میں کوئی بڑی رکاوٹ موجود نہیں ہے۔ افغان حکومت کے خلاف حزب اسلامی کے اراکین کے مسلح حملوں کے خاتمے اور اس کے امن عمل میں شامل ہونے سے اس ملک میں قومی آشتی کے پروگرام کو عملی جامہ پہنائے جانے میں مدد ملے گی۔ قومی آشتی کا یہ منصوبہ حکومت مخالف مسلح گروہوں کے ساتھ امن پر مشتمل ہے۔ افغانستان کی حکومت کے ساتھ حزب اسلامی کی ممکنہ آشتی سے جہاں دہشت گردی کے خلاف حکومت کے اخراجات میں کمی واقع ہوگئی وہیں افغان حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مقابلے کے لئے اس جماعت سے افرادی قوت بھی حاصل کر سکتی ہے۔

البتہ اس بات کی توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ افغانستان کی حکومت اور حزب اسلامی کے درمیان صلح ہوجانے کی وجہ سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا سے متعلق طالبان کی پالیسی میں بھی تبدیلی آ جائے گی۔ طالبان کے سرغنے ملا عمر کی ہلاکت کے بعد اس گروہ کے مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوجانے اور اس گروہ کے اندر پائے جانے والے مختلف نظریات افغانستان کی حکومت کے ساتھ مذاکرات میں شامل نہ ہونے اور امن مذاکرات کے آغاز کے لئے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کی ضرورت پر تاکید کی گئی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ افغانستان کی حزب اسلامی کے سربراہی کونسل میں طالبان کی سربراہی کونسل کی نسبت زیادہ سمجھداری اور عقل و منطق کی حامل ہے۔

ٹیگس