دہشتگردی پر قابو پانے میں یورپی یونین کی ناکامی
یورپی پارلیمنٹ کے ارکان نے یورپی ملکوں میں دہشتگردی کے مقابلے کے قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے پراعتراض کیا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے اراکین نے یورپ کے بعض بڑے ملکوں پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے یورپی یونین کےملکوں کے ساتھ انٹلیجنس شیرنگ میں کوتاہی کی ہے۔ یورپ کے اس قانون ساز ادارے کے ارکان نے اس کے علاوہ یورپی ملکوں سے مطالبہ کیا ہے کہ سنجیدہ طور سے یورپی شہریوں کے داعش دہشتگرد گروہ کی صفوں میں شامل ہونے کی روک تھام کے لئے سنجیدہ کوشش کی جائے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ یورپ کی سطح پر انٹلیجنس اور سکیورٹی شعبوں میں تعاون بڑھانے یعنی انٹلیجنس شیرنگ کے لئے ایک پلیٹ فارم پر آنے کی بات کی جارہی ہے۔ حال ہی میں جرمنی کے وزیر داخلہ تھامس دی مایزر نے انٹلیجنس شعبے میں یورپی ملکوں کی محدود صلاحیتوں اور توانائیوں کوھدف تنقید بناتے ہوئے کہا تھا کہ یورپی یونین کو دہشتگردی کے خلاف مقابلے میں سیکورٹی لحاظ سے موثر تعاون کرنا چاہیے۔ ان کے بقول سکیورٹی کے میدان میں یورپی یونین کی صلاحیتیں نہ صرف محدود ہیں بلکہ اس یونین کا رکن کوئی بھی ملک اپنے حدود و اختیار سے دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جرمن وزیر داخلہ دی مایزر نے کہا کہ رواں برس میں مارچ کے دہشتگردانہ حملوں کے بعد بہت سی یورپی تنظیموں نے ایک دوسرے سے انٹلجنس تعاون کرنے سے گریز کیا اور اس کے نتیجے میں یوروپل مجبور ہوئی کہ ممکنہ دہشتگردوں کے بارے میں اپنی نوے فیصد معلومات جرمنی سمیت پانچ یورپی ملکوں سے حاصل کرے۔
سکیورٹی اور انٹلجنس شعبوں بالخصوص دہشتگردی کے مقابلے میں یورپی ملکوں کا نامناسب تعاون اور اس پر یورپی پارلیمنٹ اور جرمن وزیر داخلہ کی شدید تنقید اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ یورپ میں سیکورٹی اور انٹلجنس شعبوں میں شدید کمزوریاں پائی جاتی ہیں۔ پیرس میں نومبر دوہزار پندرہ کو ہونے والے دہشتگردانہ واقعات کے بعد یورپی ملکوں کے وزرا داخلہ نے متعدد نشستوں میں سرحدوں اور شہریوں پرنگرانی کرنے اور ممکنہ دہشتگردانہ واقعات کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی تدابیر اختیار کی تھیں۔ ان تدابیر کا مقصد ان یورپی شہریوں کی جانب سے دہشتگردی کے خطرات کو کم کرنا تھا جو شام اور عراق میں تکفیری دہشتگرد گروہوں میں شامل ہوچکے ہیں اور اب واپس آکر اپنے ملکوں میں مختلف طرح کی دہشتگردانہ کارروائیاں انجام دے رہے ہیں۔
یورپ کے سیکورٹی حکام کے مطابق پانچ ہزار سے زائد یورپی شہری شام وعراق جاکر دہشتگرد گروہوں کی صفوں میں شامل ہوگئے تھے اور ان میں کچھ اب اپنے وطن واپس آگئے ہیں۔ اس کے باوجود بظاہر یورپی ملکوں کی تدابیر کافی نہیں تھیں اور یہ دہشتگرد ہیں جو ہمیشہ حملے کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
برسلز میں حالیہ دہشتگردانہ حملوں سے نشاندہی ہوتی ہےکہ یورپی ممالک دہشتگردانہ حملوں کے مقابل دفاعی پوزیشن میں آگئے ہیں اور ان خطروں کاموثرمقابلہ کرنے اورنہ ہی پہلے سے ان کے بارے میں اطلاع حاصل کرنے اورانہیں ناکام بنانے کی توانائی رکھتے ہیں۔ یورپی پولیس یوروپل کے جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں مزید دہشتگردانہ حملوں کاامکان پایا جاتا ہے اور یہ حملے کسی بھی لمحہ ہوسکتے ہیں۔
واضح رہے یورپ اس صورتحال سے اس وجہ سے دوچار ہوا ہے کہ یورپ وہی کاٹ رہا ہے جو اس نے شام میں انواع و اقسام کے دہشتگردوں منجملہ داعش کی حمایت کرکے بویا ہے۔ اس وقت ان ہی گروہوں میں ایک یعنی داعش کھلے بندوں یورپی ملکوں کو وسیع حملوں کی دھمکیاں دے کر ان پر عمل بھی کررہا ہے۔ ان دھمکیوں کے سنجیدہ ہونے کے باوجود یورپی ملکوں کے سکیورٹی اور انٹلجنس اقدامات زیادہ تر اپنے اپنے ملکوں کی سطح پر ہیں اور یقینا اس رویے کے جاری رہنے سے یورپی ملکوں کو دہشتگردانہ حملوں سے بے پناہ نقصان پہنچ سکتا ہے۔یورپی پارلیمنٹ کی درخواست کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔