افغانستان میں امریکہ کی نئی رسوائی
ایسی حالت میں جب کہ امریکہ کے سیاسی و فوجی حکام اس بات کا دعوی کر رہے ہیں کہ واشنگٹن نے افغان عوام کے مسائل و مشکلات کے حل میں مدد کے لئے اربوں ڈالر خرچ کئے ہیں، امریکہ کے نگراں حلقوں کی جانب سے پیش کی جانے والی رپورٹوں سے واشنگٹن کا دعوی جھوٹا ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔
افغانستان کی تعمیرنو کے لئے امریکہ کے خصوصی انسپکٹر جان سپکو نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں اعلان کیا ہے کہ افغانستان میں تجارت کے فروغ اور اقتصادی ترقی کے لئے اربوں ڈالر ضائع ہوئے ہیں۔ انھوں نے امریکی سینٹ کی فوجی امور سے متعلق کمیٹی کے اجلاس میں کہا ہے کہ بیشتر شکایات، افغانستان میں امریکہ کی وزارت دفاع کے منصوبوں سے متعلق ہیں۔ اس سے قبل انھوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ افغانستان کی تعمیرنو پر صرف ہونے والا مالی بجٹ، دوسری عالمی جنگ میں یورپ کی تعمیرنو پر صرف ہونے والے بجٹ سے کہیں زیادہ رہا ہے۔
جان سپکو نے اعتراف کیا کہ مالی سال دو ہزار دو سے امریکی کانگریس نے افغانستان کی تعمیرنو کے لئے ایک سو تیرہ ارب سے زائد ڈالر مختص کئے ہیں اور یہ رقم، اس رقم سے تقریبا دس ارب ڈالر زیادہ ہے کہ جس کا امریکہ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کی تعمیرنو کے عمل میں تعاون کرنے کے بارے میں وعدہ کیا تھا۔
یہ پہلی بار نہیں ہے کہ افغانستان کی تعمیرنو کے لئے امریکہ کے خصوصی معائنہ کار جان سپکو نے امریکہ کی جانب سے افغانستان سے متعلق مختص بجٹ خرچ کئے جانے کے طریقہ کار پر تنقید کی ہے۔ تاہم ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں امریکہ کے ذمہ دار اداروں کے حکام، ان کی رپورٹوں پر کوئی توجہ نہیں دیتے۔ افغانستان کی تعمیرنو سے متعلق امریکی بجٹ صرف کئے جانے کے طریقہ کار کے نگران اداروں کی جانب سے پیش کی جانے والی حالیہ رپورٹوں میں اس بات پر تاکید کی گئی ہے کہ اخراجات کے جو اعداد و شمار پیش کئے گئے ہیں ان میں اور افغانستان میں جو امور انجام پائے ہیں ان میں بہت زیادہ فرق پایاجاتا ہے اور رپورٹوں میں جن امور کی انجام دہی کا دعوی کیا گیا ہے وہ عملی طور پر انجام ہی نہیں پائے ہیں یا افغانستان کے ایسے علاقوں میں یہ امور انجام پائے ہیں کہ جہاں کوئی آبادی ہی نہیں ہے۔
افغانستان کی حکومت نے بھی افغانستان کی تعمیرنو سے متعلق امداد اور مغربی ملکوں کے مخصوص کئے جانے والے بجٹ کو صرف کئے جانے کے طریقہ کار پر بارہا تنقید کی ہے اور تاکید کے ساتھ اعلان کیا ہے کہ مغربی اداروں کی جانب سے سارے امور، کابل حکومت سے کسی بھی صلاح و مشورے کے بغیر انجام دیئے جا رہے ہیں اور بہت سے امور ایسے بھی انجام پا رہے ہیں جو بالکل غیر ضروری ہیں۔ اس بات کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مغربی اداروں کی جانب سے افغانستان میں اپنے مفادات کی بنیاد پر امور انجام پا رہے ہیں جن میں بہت زیادہ کرپشن کے مسائل بھی درپیش ہیں حالانکہ مغربی حلقے، افغانستان کی حکومت پر بدعنوانی کو کنٹرول کرنے میں ناتوانی کا الزام لگاتے ہیں جب کہ جاری کی جانے والی رپورٹوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ افغانستان میں جاری کرپشن کے ذمہ دار، وہی مغربی ادارے اور کمپنیاں ہیں جو اس ملک میں مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہیں۔
اس رو سے افغانستان میں مغربی حلقوں پر ایک اہم تنقید، اس بات پر ہے کہ گذشتہ پندرہ برسوں میں بین الاقوامی امداد سے افغان عوام کی مشکلات ختم نہیں ہوئی ہیں اور اس ملک کے عوام کو بدستور بڑھتی ہوئی غربت اور معاشی مسائل و مشکلات کا سامنا ہے، ایک ایسی صورت حال کہ جس کا بذات خود افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے بھی مکمل اعتراف کیا ہے۔
بہرحال امریکہ، افغانستان کی تعمیرنو سے متعلق مخصوص کئے جانے والے بجٹ کی رقم اور اسے صرف کئے جانے کے بارے میں جھوٹے اعداد و شمار پیش کر کے صرف سیاسی فائدہ اٹھانے اور افغان عوام کو فریب دینے کے درپے ہے اور یقینا افغانستان میں امریکہ کی جانب سے بجٹ صرف کئے جانے کے طریقہ کار کے بارے میں، جاری کی جانے والی حقیقی رپورٹوں سے افغان عوام میں واشنگٹن ماضی سے کہیں زیادہ ذلیل اور رسوا ہو گا۔