May ۰۹, ۲۰۱۶ ۱۹:۱۵ Asia/Tehran
  • فرانس میں دہشت گردی کے مقابلے کے لئے والس کا نیا منصوبہ

فرانسیسی وزیر اعظم مانوئیل والس نے اپنے ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مقابلے کے لئے نئے منصوبے کی خبر دی ہے۔

فرانسیسی وزیراعظم دہشت گردی کے مقابلے کے لئے نہ صرف اسپیشل فورس اور سیکورٹی کے محکموں بلکہ تمام سرکاری اداروں کی خدمات حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ والس نے پیر کے دن کہا کہ یہ منصوبہ نئےاقدامات اور تدابیر خصوصا انتہا پسند جوانوں کی نگرانی اور ایسے جوانوں کی سرپرستی کے وسائل و امکانات میں اضافہ کئے جانے پر مشتمل ہے جن کا مسلح اور انتہا پسند گروہوں میں شامل ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔ والس کا مزید کہنا تھا کہ اس منصوبے پر انسداد دہشت گردی قوانین کے دائرہ کار میں عملدرآمد کیا جائے گا اور یہ ایسا پہلا منصوبہ ہے جس کو اپریل دو ہزار چودہ میں منظور کیا گیا اور نومبر دو ہزار پندرہ میں پیرس میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے بعد تقویت پہنچائی گئی۔ والس نے گزشتہ ہفتے فرانس کی نیشنل اسمبلی میں کہا کہ ہزاروں جوانوں کے انتہا پسند ہونے کی وجہ سے حکومت کو ایک بار پھر انتہا پسندی کے مقابلے کے لئے آمادہ اور سابقہ تدابیر کو زیادہ کارگر بنانے کے لئے نئی تدابیر اختیار کرنا پڑی ہیں۔

تیرہ نومبر دو ہزار پندرہ کو پیرس میں دہشت گردانہ حملے ہوئےتھے ان حملوں میں ایک سو تیس سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ ان حملوں کے بعد فرانس نئے منصوبہ کے تحت حفاظتی تدابیر میں اضافہ کرنے اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر ملوث افراد کی سزاؤں کو بڑھانے کے ذریعے اس طرح کے واقعات کو دہرائے جانے کی روک تھام کرنے کے درپے ہے۔

البتہ جنوری دو ہزار پندرہ میں پیرس میں چارلی ایبڈو جریدے کے دفتر اور یہودیوں کی ایک دکان پر دہشت گردانہ حملے کے بعد کہ جس میں سترہ افراد ہلاک ہوگئے تھے، فرانسیسی حکومت نے دہشت گردوں کی شناخت اور دہشت گردانہ حملوں سے قبل ازوقت آگاہ ہونے کے لئے مختلف منصوبوں پرعملدرآمد کیا۔ جن کے خلاف فرانس میں موجود انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعتراض کیا تھا۔ ان اقدامات میں انٹیلی جنس لاء کے نام سے فرانس کی خفیہ ایجنسیوں کے اختیارات میں اضافہ کرنا بھی شامل تھا کہ جس کے خلاف فرانسیسی عوام نےوسیع پیمانے پر اعتراض کیا۔ اس قانون کے مخالفین نے اسے شہریوں کی پرائیویسی پر ایک بہت بڑی ضرب قرار دیا اور خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں معاشرے کو کنٹرول کئے جانے سے تعبیر کیا۔

ان تمام باتوں کے باوجود تیرہ نومبر کے حملوں سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہےکہ یہ اقدامات موثر ثابت نہیں ہوئے اور دہشت گردانہ اقدامات کو نہیں روک سکے۔ اب فرانس کی سوشلسٹ حکومت انتہا پسندی اور دہشت گردی کے مقابلے سے متعلق اپنے سابقہ منصوبوں کو جاری رکھتے ہوئے شدید حفاظتی تدابیر اختیار کرنے خصوصا دوسری اور تیسری نسل سے تعلق رکھنے والے جوان تارکین وطن ، کہ جو زیادہ تر بڑے شہروں کے مضافات میں رہتے ہیں اور انتہا پسندی پر مبنی پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں، کی نگرانی کرنے کے ذریعے دہشت گردانہ واقعات کی روک تھام کرنے کے لئےکوشاں ہے۔

انسانی حقوق کی حامی تنظیمیں اور شخصیات پیرس دہشت گردانہ حملوں کے بعد فرانس میں اختیار کی جانے والی حفاظتی تدابیر کو افراد کی آزادیوں کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ فردی آزادیوں کی راہ میں مستقل طور پر رکاوٹیں کھڑی کئے جانے کی بنا پر فرانس میں ایک ایسی حکومت وجود میں آرہی ہے جس کو ہمیشہ بحران کا ہی سامنا رہتا ہے۔

فرانس دوسرے یورپی ممالک سے زیادہ دہشت گرد گروہ داعش کے حملوں کی زد میں ہے۔ یورپ خصوصا فرانس کہ جہاں تارکین وطن کی زیادہ تر تعداد شمالی افریقہ کے ممالک سے آکر آباد ہوئی ہے، میں دہشت گردانہ حملوں میں اضافے کے امکان کے پیش نظر ایسا لگتا ہے کہ فرانس کی سوشلسٹ حکومت اس سلسلے میں نئے منصوبوں پرعملدرآمد اور ایسے افراد کی نگرانی میں اضافہ کرنے کے سلسلے میں پرعزم ہے جن کے انتہا پسند ہونے کا امکان پایا جاتا ہے۔

ٹیگس