پاکستان میں دہشت گردی مخالف حملے جاری رہنے پر اوباما کی تاکید
امریکی صدر باراک اوباما نے پاکستان میں دہشت گردی مخالف حملے جاری رکھنے پر تاکید کی ہے-
امریکی صدر باراک اوباما نے طالبان افغانستان کے سرغنہ ملا اختر منصور کی ہلاکت کی خبر کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ امریکی فوجی پاکستان کے اندر دہشت گردی مخالف کارروائیاں جاری رکھیں گے- انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانے جہاں بھی ہوں انھیں ختم ہونا چاہئے-
اوباما نے ایسے عالم میں پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف امریکی حملے جاری رکھنے پر تاکید کی ہے کہ اس ملک کی حکومت نے پاکستان کے فضائی حدود میں امریکہ کے ڈرون طیاروں کے حالیہ حملے پر احتجاج کرتے ہوئے اسلام آباد میں امریکی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا- خارجہ پالیسی کے امور میں پاکستانی وزیر اعظم کے مشیرخاص طارق فاطمی نے اسلام آباد میں امریکی سفیر ڈیویڈ ہیل سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی ڈرون طیاروں کے ذریعے پاکستان کے فضائی حدود کی خلاف ورزی پر تشویش ظاہر کی- انھوں نے کہا کہ اس طرح کے اقدامات پاکستان کی ارضی سالمیت پر حملہ اور اقوام متحدہ کے منشور کی خلاف ورزی شمار ہوتے ہیں-
اس کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے بھی پاکستان میں امریکی ڈرون طیاروں کی کارروائیوں کو اس ملک کے اقتدار اعلی کی خلاف ورزی قرار دیا اور اس کی مذمت کی-
پاکستان میں امریکی ڈرون حملے میں افغانستان کے طالبان کے سرغنہ ملااخترمنصور کی ہلاکت نے واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی بڑھا دی ہے - گذشتہ ہفتوں میں پاکستان کو امریکہ کی جانب سے ایف سولہ جنگی طیاروں کی حوالگی کے طریقہ کار میں تبدیلی کے باعث اسلام آباد کے بعض حکام نے وہائٹ ہاؤس کی اس پالیسی پر احتجاج کیا ہے-
حکومت پاکستان نے اسلام آباد کی جانب سے ایف سولہ جنگی طیارے خریدنے کی رقم کی ادائگی کے لئے امریکہ کے نئے فارمولے کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ اسے یہ طیارے صرف دہشت گردوں کے خفیہ ٹھکانوں کو تباہ کرنے کے لئے ہی چائیے-
پاکستان کو توقع ہے کہ امریکہ ، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں واشنگٹن کے ساتھ اسلام آباد کے تعاون کے باعث ایف سولہ جنگی طیارے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فوجی اور مالی مدد کے طور پر دے گا-
امریکی حکومت، پاکستان کو ایف سولہ جنگی طیارے حوالے کرنے کے لئے اپنے ملک کی کانگریس کے معینہ فارمولے سے اتفاق نہیں رکھتی لیکن اوباما مجبور ہیں کہ کانگریس کے موقف پر عمل کریں لیکن اسلام آباد کی نظر میں اس مسئلے میں حکومت اور امریکی کانگریس میں کوئی فرق نہیں ہے-
افغانستان کے طالبان کے سرغنہ ملا اختر منصور کو قتل کرنے کے مقصد سے پاکستان میں امریکی ڈرون حملے پر پاکستانی حکام کے منفی ردعمل کے باوجود امکان پایا جاتا ہے کہ واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان سفارتی تنازعہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اور ملااختر منصور کے قتل کے لئے دو طرفہ تعاون کے تناظر میں انجام پایا ہو -
اس ممکنہ سیناریو میں پاکستان نے ملااختر منصور کو جال میں پھنسانے اور انھیں قتل کرنے کے لئے امریکی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے اور دونوں ملکوں کے حکام کے حالیہ دنوں سامنے آنے والے تنازعے کا مقصد صرف پاکستان میں امریکہ کے دہشت گردی مخالف حملوں کے لئے وہائٹ ہاؤس کے منصوبے سے اسلام آباد کی لاعلمی ظاہر کرنا ہے- کہا جا رہا ہے کہ افغانستان کے طالبان کے سرغنہ ملا اختر منصور کو قتل کرنے کے لئے امریکہ کے ساتھ پاکستان کے تعاون کا مقصد اسلام آباد کے خلاف واشنگٹن کا فوجی، مالی اور سیاسی دباؤ کم کرنا اور افغان امن کے چار فریقی اجلاس میں تعطل سے باہر نکلنا ہے-