افغانستان کے وزیر دفاع کے عہدے کے لئے جنرل عبداللہ خان کا نام پارلیمنٹ میں پیش
افغانستان کے صدر محمد اشرف غنی نے اپنی کابینہ کی تکمیل کے لئے وزیر دفاع اور نیشنل سیکورٹی کے سربراہ کے نام پارلیمنٹ میں پیش کر دیئے ہیں۔
محمد اشرف غنی نے دو الگ الگ حکم جاری کرتے ہوئے قومی دفاع کے وزیر کے لئے جنرل عبداللہ خان اور نیشنل سیکورٹی کے سربراہ کے عہدے کے لئے معصوم استانکزئی کے نام اعتماد کے ووٹ حاصل کرنے کے لئے پیش کئے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ دونوں افراد اس وقت وزارت دفاع اور نیشنل سیکورٹی کے ادارے کا انتظام قائم مقام کی حیثیت سے چلا رہے ہیں۔
افغانستان کی متحدہ قومی حکومت کی تشکیل کو دو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر رہا ہے لیکن اس کے باوجود محمد اشرف غنی کی کابینہ میں ابھی تک کسی کو وزیر دفاع نہیں بنایا گیا ہے اور اسےاس ملک کی متحدہ قومی حکومت کا ایک نقص سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان کا نیشنل سیکورٹی کا ادارہ بھی اس ملک کا ایک اہم ترین ادارہ ہے لیکن کسی کو ابھی تک اس کا مستقل طور پر سربراہ نہیں بنایا گیا ہے۔
افغانستان کی حکومت اس وقت طالبان اور داعش جیسے مسلح گروہوں کے ساتھ حالت جنگ میں ہے اور اس حکومت کےمخالفین دو اہم دفاعی اور سیکورٹی اداروں کا انتظام قائم مقام کے ذریعے چلائے جانے کو افغانستان کی متحدہ قومی حکومت کی کمزوری کی علامت قرار دیتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے بارہا حکومت کو اس کے منفی نتائج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
افغان حکومت کی اپوزیشن کا کہنا ہےکہ وزیر دفاع کا عہدہ خالی ہونے کی وجہ سےایک جانب خیالی فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور دوسری جانب ملک کا استحکام اور سیکورٹی کی مینیجمنٹ کابل حکومت کے ہاتھ سے خارج ہوگئی ہے۔ پارلیمانی اراکین کا خیال ہےکہ افغان صدر نے وزیر دفاع کا نام پیش نہ کر کے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اور جنگی میدانوں میں موجود ہزاروں فوجیوں کی جانوں کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔
افغانستان کے سیاسی مبصرین کے زاویہ نگاہ کے مطابق وزیر دفاع اور نیشنل سیکورٹی ادارے کے سربراہ کے عہدوں کے لئے نام پیش کئے جانے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اس بارے میں افغان صدر محمد اشرف غنی اور متحدہ قومی حکومت کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے دو گروہوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہوگیا ہے۔
افغانستان کے بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ان دو گروہوں کے اختلافات کی وجہ سےوزیر دفاع کا عہدہ خالی پڑا ہوا ہے۔ بین الاقوامی اعتبار سے بھی یہ صورتحال افغانستان کی حکومت کے فائدے میں نہیں ہے کیونکہ افغانستان کی حکومت کو ملنے والی بین الاقوامی امداد خصوصا فوجی امداد جاری رہنے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
وزارت دفاع اور جنگی امور میں جنرل عبداللہ خان اور نیشنل سیکورٹی کے ادارے میں معصوم استانکزئی کے تجربے کے پیش نظر افغانستان کی متحدہ قومی حکومت کو امید ہے کہ ان دونوں کو پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ ملنے کے بعد حکومت اور سیکورٹی ادارے امن عامہ میں خلل ڈالنے والوں اور دہشت گرد گروہوں کا زیادہ طاقت اور قوت کے ساتھ مقابلہ کریں گے۔
افغان صدر محمد اشرف غنی نے حال ہی میں طالبان کے ساتھ آشتی پر مبنی اپنی حکومت کی ترجیح کو اس گروہ کے ساتھ جنگ کی ترجیح میں بدل دیا ہے۔ وزیر دفاع اور نیشنل سیکورٹی کے ادارے کے سربراہ کے نام پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ کابل حکومت اس پالیسی اور اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کے سلسلے میں پرعزم ہے اور اس کی کوشش ہے کہ سیکورٹی اور دفاعی ادارے پوری طاقت کے ساتھ تشدد پسندوں اور دہشت گردوں کے مقابلے میں ڈٹ جائیں۔
افغان پارلیمنٹ کی جانب سے وزیر دفاع اور نیشنل سیکورٹی ادارے کے سربراہ کے نام پیش کرنے اور کابینہ کی تکمیل پر تاکید کئے جانے کے پیش نظر اس ملک کی متحدہ قومی حکومت کو امید ہے کہ جن افراد کے نام پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے ہیں وہ اعتماد کا ووٹ حاصل کرنےمیں کامیاب ہوجائیں گے۔